ترکیہ اور شام میں زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 20 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔ جب کہ مختلف علاقوں میں ملبے تلے دبے افراد کے زندہ بچنے کی امیدیں بھی دم توڑنے لگی ہیں۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سخت سردی نے ہزاروں عمارتوں کی چار روزہ تلاش میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے اور بہت سے زلزلہ متاثرین کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے جو کہ پناہ گاہ اور پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کے امکانات اب معدوم ہو گئے ہیں کہ 72 گھنٹے کا وہ مارک جس کو ماہرین جانیں بچانے کا سب سے زیادہ اہم وقت سمجھتے ہیں، گزر چکا ہے۔
پیر کو آنے والا زلزلہ 1939 کے بعد ترکیہ میں دیکھا جانے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا، جب مشرقی صوبہ ایرزنکان میں 33 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ زلزلہ اس وقت آیا جب لوگ پیر کی صبح ایک ایسے علاقے میں سو رہے تھے جہاں شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے بہت سے لوگ پہلے ہی بے گھر ہو چکے تھے۔
حکام اور طبی ماہرین نے بتایا کہ پیر کے 7.8 شدت کے زلزلے سے ترکیہ میں 16 ہزار 546 اور شام میں تین ہزار 317 افراد جانیں گنواچکے ہیں، جس سے تصدیق شدہ ہلاکتوں کی کل تعداد 19 ہزار 863 ہو گئی ہے ۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہے گا۔