اسلام آباد(اے ون نیوز) وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ عدالتی کارروائی پر سوالیہ نشان ہے، چیف جسٹس کو استعفیٰ دینا چاہئے، متنازعہ بینچ اس پٹیشن پر بنایا گیا جو ڈس مس ہو چکی تھی، اب الیکشن کا نہیں بینچ فکسنگ کا معاملہ ہے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا کہنا تھا کہ جسٹس اطہر من اللہ کا آج آنے والا فیصلہ بڑا اہم ہے، جب عدالتی کارروائی متنازع ہو جائے تو اسےعوام کیسے تسلیم کرے گی، یہ مسترد شدہ پٹیشن تھی اس پربینچ نہیں بن سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ متنازع بینچ اس پٹیشن پر بنایا گیا جو ڈس مس ہو چکی تھی، سپریم کورٹ کی اکثریت نے اس پٹیشن کو ڈس مس کیا تھا، آج اطہرمن اللہ کے فیصلے میں کہا گیا کرائسز کا آغاز ہی ازخود نوٹس تھا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ایک لاڈلے، فارن ایجنٹ، گھڑی چور کی سہولت کاری قابل قبول نہیں، عمران خان کا خط آئینی چودھری شجاعت کا خط غیر آئینی، سائفر پر یہ سارا تماشا رچایا گیا، سی سی پی او کی ٹرانسفر سے ازخود نوٹس نکل آتا ہے، خیبرپختونخوا میں 90 دن کا اصول نہیں پنجاب میں فیصلہ کر دیا جاتا ہے، چار ججز نے کہا اس پٹیشن کو ڈس مس کیا جائے، چیف جسٹس صاحب! ڈس مس پٹیشن پربینچ کیسے بنایا؟
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو عدالت میں سنا نہیں گیا، جس جماعت کے کہنے پر ازخود نوٹس لگایا ان کوعدالت بلا بلا کر سنا گیا، 13 جماعتوں کو نہیں سنا گیا، کیوں تیرہ جماعتوں کو نہیں سنا گیا، کیا الیکشن صرف تحریک انصاف نے لڑنا تھا، پارلیمان نے کہا عدالت الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں مداخلت کر رہی ہے، عمران خان نے خود اسمبلیاں توڑیں، آئین کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح قبول نہیں کی جا سکتی، ایسے بینچ کا فیصلہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ آج عمران داری پرآئین و سچ کی فتح ہوئی ہے، سچ بولنے والے ججز نے اس سہولت کاری کو بے نقاب کیا ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا بینچوں کی تشکیل اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے، اس کیس میں پٹیشنر سائفر والا فارن ایجنٹ، ٹیریان کا والد تھا، پہلے لانگ مارچ پھر جیل بھرو تحریک کا ڈرامہ رچایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ آنے کے بعد اکثریت ججز کا فیصلہ مکمل ہو گیا، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، یہ بات عیاں ہو چکی عمران خان کی سہولت کاری کی جا رہی تھی، پارلیمان نے کہا متنازع بینچ نہیں بن سکتا، چاروں اکثریتی ججز نے کہا فل کورٹ بننا چاہیے تھا، آج جسٹس اطہر من اللہ نے بھی کہا فل کورٹ بننا چاہیے تھا۔
وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ عدالتوں میں ڈیڑھ لاکھ پینڈنگ کیسز پڑے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان کی اپنی پوزیشن متنازع ہو گئی ہے، چیف جسٹس کو استعفیٰ دینا چاہیے، سازشی ٹولہ کہہ رہا ہے یہ الیکشن کا معاملہ ہے، یہ آئین کی تشریح اور چیف جسٹس کا معاملہ ہے، آئین کے ساتھ کھلواڑ کی کسی کواجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ 2017 میں بلیک ڈکشنری کا سہارا لیکر نوازشریف کو ڈس کوالیفائی کیا گیا، ایسے فیصلے ملکی ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں، جب اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوتی ہے تو انہیں جانور کہتا ہے، جب عدالت بلاتی ہے تو بدمعاش اسلحہ لے کر عدالت کو ڈراتا ہے، یہ ٹیریان کے والد کی سہولت کاری ہو رہی ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ جب سیاست دان ملک ٹھیک کر رہا ہوتا ہے تو اس کے خلاف سازش کی جاتی ہے، یہ سازش اور کھلواڑ اب ختم ہونا چاہیے، یہ کوئی الیکشن کا معاملہ نہیں ہے، الیکشن پورے ملک میں ایک ہی وقت پر ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ متنازع فیصلے کے بعد چیف جسٹس کو مستعفی ہونے کا کہہ رہے ہیں، یہ مطالبہ آج پاکستان کے عوام کر رہے ہیں، یہ کونسا ہوائی بینچ تھا جس کی پٹیشن ہی موجود نہیں تھی، اب تو چار ججز کا فیصلہ آگیا ہے، اب تو معاملہ ہی ختم ہوگیا ہے، چار ججز نے ڈس مس کر دیا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں خود بینچ اور فیصلہ کر دیا، فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے، فیصلے پرعملدرآمد کی قانون اجازت نہیں دیتا۔