Jannah Theme License is not validated, Go to the theme options page to validate the license, You need a single license for each domain name.
اہم خبریںبلاگتازہ ترین

مسائل حل کرنے کا نسخہ….ستار چودھری

کس نے پاکستان کو یرغمال بنایا ہوا؟کون فرعون کا روپ دھار کرعوام کو ذبح کرنے پر تلا ہوا؟کون نمرود بن کرلوگوں کی امید یں بھی چھین رہا؟کون خدا کی لہجے میں باتیں کررہا ہے؟غریب کا17سو کا بل معاف نہیں ہوتا،شہباز شریف کی17ارب کی کرپشن معاف ہوجاتی ہے۔

دونوں بنارسی ٹھگ24کروڑ عوام کی نسیں کاٹ کر وطن واپس چلےگئے ہیں۔لوگوں کو واپڈا کے دفتروں کا نہیں،جاتی امرا،ماڈل ٹائون،بلاول ہائوس،نائن زیروکا گھیرائو کرنا چاہیے۔فضل الرحمٰن،اسفند یار ولی،شیرپائو،مینگل ہائوس کے سامنے دھرنا دینا چاہیے۔تھر سے4روپے میں بجلی پیدا ہوسکتی تھی،شہباز نے ساہیوال اورنندی پور وغیرہ میں 32 روپے فی یونٹ والی بجلی کوکیوں ترجیح دی تھی؟

سب سے سستی بجلی پانی سے تیار ہوتی،کون ہے جو ڈیمز نہیں بننے دیتا؟لاکھوں روپے تنخواہ لینے والوں کو بجلی ،پٹرول مفت،30ہزار تنخواہ لینےوالے کو20ہزاربجلی کابل،بل ادا کرے یا بچوں کو روٹی کھلائے؟ اشرافیہ کی کیا بات کروں، صرف واپڈا کے افسر اور ملازم سالانہ 8ارب کی بجلی فری استعمال کررہے ہیں۔عوام کو اب سوچنا ہوگا،کب تک خون پسینہ ایک کرکے اشرافیہ اور انکے خاندانوں کوپالتے رہنا ہے؟

قیدی نمبر804نے عوام کو کہا تھا’’ میں تو برداشت کرلوں گا،آپ سے برداشت نہیں ہوگا،اُٹھو غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالو‘‘۔مذاق اڑایا گیا تھا،مذاق اڑانے والوں سے مخاطب ہوں ! کرو اب برداشت،چیختے کیوں ہو؟تمہیں 150 روپے میں لیٹر پٹرول،15روپے یونٹ بجلی قبول نہیں تھی۔ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔۔۔آئی ایم ایف نے گیس کی قیمتیں بھی بجلی کی طرح بڑھانے کیلئے حکومت کو ڈنڈا دیا ہوا ہے۔جبکہ پہلے بھی گیس قیمتیں200فیصد سے زائد بڑھائی جاچکی ہیں۔کوئی ایک نہیں،ملک کا ہر ادارہ ناکام ہوچکا،سپریم کورٹ کا حکم ہائی کورٹ نہیں مان رہا،ہائی کورٹ کا لوئر کورٹ نہیں مان رہا۔

صدر کے دستخط کئے بغیر قانون پاس ہوچکا،رائج بھی ہوگیا،عدالت بھی بن گئی،جج بھی تعینات ہوگیا،مقدمات بھی شروع ہوگئے۔حد ہوگئی،ایک سیاسی پارٹی اپنے چیف جسٹس کےآنے کا انتظار کررہی ۔لاہور میں تعینات ایک جج نے اپنی مدت ملازمت کے آخری روز نواز شریف کو پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں بری کیا،حالانکہ نواز شریف نے بری کرنے کی استدعا ہی نہیں کی تھی ڈیل کیسے ہوئی؟ کہاں ہوئی؟جج کی کس سے رشتے داری تھی ؟ اس کیلئے پورا کالم درکار،ضرور لکھوں گا۔

غربت حد سے بڑھ جائے تو انقلاب آتا ہے یا جرائم بڑھتے ہیں۔ہمارا معاشرہ انقلاب والا نہیں،یہاں جرائم بڑھتے ہیں،کراچی کے چند تاجروںنے احتجاج شروع کیا،آزاد کشمیر والوں نے مسجدوں میں اعلانات کئے کہ کوئی بجلی کے بل جمع نہ کرائے۔تب جاکر پنجاب والوں کی آنکھ کھلی۔ملک میں بڑی تبدیلی یا انقلاب اس وقت ہی آئے گا جب پنجاب میدان میں آئے گا۔ہمیں ذاتی نہیں،اجتماعی سوچ لیکر چلنا ہوگا،ورنہ ایک ایک کرکے مرتے رہیں گے۔یہی ہمارا مسئلہ ہے،جس کی وجہ سے چند افراد کروڑوں عوام کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔

ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ہوا’’شیوانا‘‘ (قبل از اسلام کے ایران کا ایک مفکّر) کے پاس آیا اور کہنے لگا! میری ماں نے فیصلہ کیا ہے کہ معبد کے کاہن کے کہنے پر عظیم بُت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کر دے۔آپ مہربانی کرکے اُس کی جان بچا دیں’’شیوانا‘‘ لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ہے کہ عورت نے بچی کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑ لیے ہیں اور چھری ہاتھ میں پکڑے آنکھ بند کئے کچھ پڑھ رہی ہے۔

بہت سے لوگ اُس عورت کے گرد جمع تھے اور بُت خانے کا کاہن بڑے فخر سے بُت کے قریب ایک بڑے پتّھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبّت ہے اور وہ بار بار اُس کو گلے لگا کر والہانہ چوم رہی ہے مگر اسکے باوجود معبد کدے کے بُت کی خوشنودی کے لئے اُس کی قربانی بھی دینا چاہتی ہے۔شیوانا نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رہی ہے؟

عورت نے جواب دیا کاہن نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں معبد کے بُت کی خوشنودی کے لئے اپنی عزیز ترین ہستی کو قربان کر دوں تا کہ میری زندگی کی مشکلات ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں۔شیوانا نے مسکرا کر کہا۔ مگریہ بچّی تمہاری عزیز ترین ہستی تھوڑی ہے؟ جسےتم نے ہلا ک کرنے کا ارادہ کیا ہے، تمہاری جو ہستی سب سے زیادہ عزیز ہے وہ تو پتّھر پر بیٹھا یہ کاہن ہے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی معصوم بچّی کی جان لینے پر تُل گئی ہو۔

یہ بُت احمق نہیں ہے، وہ تمہاری عزیز ترین ہستی کی قربانی چاہتاہے، تم نے اگر کاہن کی بجائے غلطی سے اپنی بیٹی قربان کر دی تو یہ نہ ہو کہ بُت تم سے مزید خفا ہوجائے اور تمہاری زندگی کو جہنّم بنا دے،عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچّی کے ہاتھ پاؤں کھول دیئے اور چھری ہاتھ میں لے کر کاہن کی طرف دوڑی مگر وہ پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا۔ کہتے ہیں کہ اُس دن کے بعد سے وہ کاہن اُس علاقے میں پھر کبھی نظر نہ آیا۔

کس نے پاکستان کو یرغمال بنایا ؟کون فرعون کا روپ دھار کرعوام کو ذبح کرنے پر تلا گیا؟کون نمرود بن کرلوگوں کی امید یں بھی چھین رہا؟کون خدا کی لہجے میں باتیں کررہا؟یہ ہیں وہ ’’کاہن‘‘ جو ہمارے ہاتھوں سے ہمارے بچوں کے گلے کٹوا رہے ہیں،ہمیں اپنے بچوں کے بجائے چھری لیکر ان ’’کاہنوں‘‘ کی طرف دوڑنا چاہیے۔جس دن ہم نے ایسا کرلیا ہمارے مسائل حل ہوجائینگے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button