اسلام آباد(اے ون نیوز)صحافی شاہد میتلا کا سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو پر مبنی کالم کا تیسرا حصہ منظر عام پر آگیا جس میں بہت سی نئی باتیں سامنے آئی ہیں
صحافی نے ڈان لیکس پر سوال کیا تو سابق آرمی چیف نے کہا کہ جب میں آرمی چیف بنا تو اس کے بعد وزیر اعظم سے ملنے وزیراعظم ہاؤس گیا تو ان دنوں ڈان لیکس کا بہت چرچا تھا ۔ن لیگ نے اقتدار میں آکر سب سے بڑی غلطی جنرل مشرف پر آرٹیکل سکس لگا کر کی تھی۔ سیاسی جماعتوں کو ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ آرمی چیف کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور فوج اپنے سابقہ آرمی چیف پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتی۔ جب جنرل مشرف پر آرٹیکل سکس لگا تو فوج نواز شریف کے خلاف ہو گئی اور پھر فوج نے مشرف کو بچا بھی لیا ،مشرف کبھی عدالت کے راستے سے غائب ہوتے کبھی کہیں سے اور پھر ہسپتال پہنچ گئے۔
میں نے کہا جی ہاں ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی سٹوری میں نے اے آر وائی نیوزپر بریک کی تھی جو میرے کرئیر کی بڑی سٹوریز میں سے ایک ہے۔میں نے پھرکہا کہ سیرل المیڈا نے6 اکتوبر 2016کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے حوالے سے خبر دی تھی کہ شہباز شریف نے ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر سے کہاہے کہ ہم جو بھی کالعدم تنظیموں کےدہشت گرد پکڑتے ہیں ان کو آئی ایس آئی چھڑا لیتی ہے ۔پھراعزاز چوہدری نے کہا تھا کہ دنیا ہمیں دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لینے کا کہہ رہی ہے۔اگر ایسا نہیں کریں گے تو ہمیں مکمل سفارتی تنہائی بھگتنا پڑے گی۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ اعزاز چوہدری بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے۔یہی ہم نے فیٹف میں بھگتا تھا۔اب میری سائیڈ کی سٹوری سنیں۔ جب میں آرمی چیف بنا تو وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے لئے گیا تو چوہدری نثار کہنے لگے کہ ہمیں ڈان لیکس کومنطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ مطلب انکوائری کو مکمل کر کے ختم کرنا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ۔ پھر کچھ عرصے کے بعد چوہدری نثار کے حلقے میں کوئی تقریب تھی میں بھی گیا تو چوہدری نثار نے پھر وہی بات کی کہ ہمیں ڈان لیکس انکوائری کو ختم کرنا ہے۔ اس کے بعد میں نے ڈی جی آئی ایس آئی نویدمختار کو اپنے پاس بلالیا اور پوچھا کہ ڈان لیکس انکوائری کا کیا بنا کیا کچھ ملا ؟ جنرل نوید مختار کہنے لگے کہ “کچھ ثبوت ملے ہیں کہ سرل المیڈا نے 70منٹ پرویز رشید سےفون پر بات کی ہے۔ لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ کیا بات چیت ہوئی ہے۔انکوائری کمیٹی نے سرل المیڈا، اظہر عباس، راؤ تحسین، طارق فاطمی اورپرویز رشید کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے”۔
دراصل ڈان لیکس میں کچھ بھی نہیں تھا لیکن جہاں بھی جاتا تو جونئیر افسر سوال کرتے تھے ۔اس کے بعد میں نے چوہدری نثار اور اسحاق ڈار سے بات کی کہ صحافیوں کا کیس سی پی این ای کو بھیج دیتے ہیں کیونکہ میں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا اور باقیوں کے خلاف انتظامی ایکشن لینے کا فیصلہ ہوا ۔پھر میں نواز شریف کے پاس چلا گیا اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی وہ پرویز رشید پر نہیں مان رہے تھے خیرپھر مان گئےاورفیصلہ ہوا کہ پرویز رشید اور طارق فاطمی کو عہدوں سے ہٹا دیا جائے گا۔
صحافیوں کا کیس سی پی این ای کو بھیجاجائے گا اور باقیوں کے خلاف محکمانہ کارروائی ہو گی ۔اس کے ایک دن بعد میں لاہور چلا گیا تووہاں پر اے آر وائی پر اچانک ڈان لیکس کا نوٹیفکیشن چلنا شروع ہو گیا۔ اے آر وائی نیوزنے کہنا شروع کر دیا کہ دیکھیں حکومت نے شریک ملزمان کو سزا نہیں دی ۔حکومت نے ادھورا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔میڈیا نے فوج پرشدید دباؤڈالا۔میں نے اسی وقت جنرل آصف غفور کو فون کیا اور انگریزی میں (حکومت کو)برا بھلاکہا کہ ان سے کہو کہ پورا نوٹیفیکیشن ایشو کریں ۔جنرل آصف غفور نے اپنے طور پرہی نوٹیفکیشن ریجیکٹڈ کا ٹویٹ جاری کر دیا ۔
اسی دن مجھے فاٹا جانا تھا میں چلا گیا اس کے فوراً بعد مجھے فون آگیا کہ وزیر اعظم نے ملنا ہے، وزیر اعظم ہاؤس پہنچا تو نواز شریف نے میرا باہر آکراستقبال کیا ۔میرا خیال تھا کہ وہ غصے میں ہوںگے کچھ نہ کچھ ناگواری کا اظہار کریں گے۔ لیکن انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا ۔ملاقات کے اختتام پر صرف اتنا کہا کہ جنرل صاحب غصے میں فیصلے نہ کیا کریں۔ میرے دل میں آیا کہ کچھ غلط ہو گیاہے ۔دو دن بعد وزیر اعظم نے چین جانا تھا ۔اب جنرلز اور سیاسی لیڈر میرے پاس آنا شروع ہو گئے کہ ٹویٹ واپس مت لیں کبھی فوج نے بھی کوئی چیز واپس لی۔ اس دوران خواجہ آصف بھی میرے پاس آئے۔دیگر مسلم لیگیوں نے بھی آ کر کہا کہ ٹویٹ واپس نہ لیں۔لیکن میں ملک کے وزیر اعظم کو کمتر حیثیت میں چین نہیں بھیج سکتا تھا ایسے وزیر اعظم کی چین میں کیا حیثیت ہوتی جس کے اختیار میں اس کی اپنی فوج بھی نہیں ہےا س لیے ٹویٹ واپس لے لیا ۔ کہتے جنرل نوید مختار شریف آدمی تھے کوئی زیادہ با اختیار بھی نہیں تھے ۔جنرل فیض سارے کام کرتے تھے ۔میں نے کہا اس کی وجہ آپ تھے آپ کی طرف سے جنرل فیض کو اختیار اور طاقت دی گئی تھی؟
جنرل باجوہ : ہاں یہ بات بھی ہے اور ویسے بھی ہم پہ عمران خان کو لانے کا بھوت سوار تھا۔کہتے ڈان لیکس کا ایشو جنرل راحیل شریف نے ایکسٹینشن لینے کے لیے بنایا تھا۔اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔نواز شریف سے جب ڈان لیکس پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ جنرل راحیل اور جنرل رضوان اختر جب بھی ملاقات کے لیے آتے تو جنرل راحیل شریف کی ایکسٹینشن کی بات کرتے تھے۔ جنرل رضوان، جنرل راحیل کے سامنے نواز شریف کو کہتے کہ جنرل راحیل کو تین سال کی ایکسٹینشن دے دیں لیکن راحیل شریف کے بعد وہ نواز شریف کو کہتے کہ صرف ایک سال کی ایکسٹینشن دیں۔کیونکہ ایک سال کی ایکسٹینشن کے بعد جنرل رضوان اخترکا اپنا نمبرآنا تھا۔