آپ نے اکثر سنا ہوگا وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو فتنہ کہتے ہیں،پریس کانفرنس کرتے ہوئے ،کسی ٹاک شو میں بیٹھ کریا انٹرویو دیتے ہوئے وہ کم ازکم دس،بارہ مرتبہ عمران خان کو فتنہ پکارتے ہیں۔
مجھے یہ لفظ استعمال کرنے کی وجہ معلوم نہیں تھی،بس کافی دنوں سے میرا ذہن اس لفظ پر رک گیا، تلاش شروع کردی اور کامیابی مل گئی۔معلوم ہوگیا موصوف عمران خان کو فتنہ کیوں کہتے ہیں۔اس کام کیلئے مجھے رانا ثنا جیسی ذہنیت رکھنے والے آدمی کی تلاش تھی،اتفاق ایسا ہوا وہ ہمسائے میں ہی مل گیا۔پانچ سال پہلے کی بات ہے،پریس کلب کےالیکشن تھے،بڑی گہما گہمی تھی،ہمارے کیمپ میں رات کو روز ایک اجنبی شخص آکر بیٹھ جاتا،درازقد،نظر کا چشمہ،صاف رنگت، وجیہہ چہرہ اور چمکتی ہوئی خوبصورت آنکھیں۔
چھوٹے چھوٹے گھنگریالے سیاہ بال،کانوں کے اوپر سے کچھ سفید تھے جو ان کے چہرے کی نرمی اور وقار میں اضافہ کرتے تھے۔اپنی فٹنس اور جوان نظر آتے چہرے کے باعث عمر سے دس پندرہ برس کم دکھائی دیتے تھے۔تیسرے روز اتفاق سے ہم اکٹھے بیٹھ گئے،مسلسل خاموشی۔آخر کار ایک دوسرے سے تعارف ہوگیا،اس دن سے لیکر آج تک وہ میرے پہلی صف والے دوستوں میں شامل ہیں بلکہ وہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی تصور کرتے ہیں۔
فیملی تعلقات قائم ہوچکے ہیں۔دو روز قبل ہم رات کو اکٹھے بیٹھے تھے میں نے انہیں بتایا کہ آپ کے ایک دوست کو پارٹی ٹکٹ مل گیا ہے وہ اس بار ایم این اے کا الیکشن لڑ رہے ہیں،میری بات سن کو وہ مسکرا دیئے،میں نے کہا میری خبر میں ہنسنے والی تو کوئی بات نہیں تھی ۔کہنے لگا کسی اور بات پر ہنسی آئی ہے۔دراصل ان کے دوست کا گائوں میرے گائوں کے قریب ترین ہے،بہرحال وہ شخص اور خاکسار کئی سالوں سے لاہور میںمقیم ہیں۔گاڑی میں بیٹھے ہوئے وہ مجھے اپنے دوست کی ایک کہانی سنانے لگے۔
بتاتے ہیں،90 کا عشرہ تھا جب وہ دی نیشن میں کرائم رپورٹر تھے۔رات کو وہ ابھی دفتر میں ہی تھے ،انکے دوست ملک عمران کی کال آگئی،انہوں نے کہا یار ! پولیس پکڑ کر لے گئی ہے،تھانے میں ہوں،کچھ کرو۔ ہوا کیا تھا؟ ملک عمران سلیم بڑے زمیندار ہیں،بزنس مین اور سیاستدان بھی ہیں۔دوبار یوسی ناظم رہ چکے،ان کے والد ملک سلیم (مرحوم) بھی سیاستدان تھے،دشمن دار آدمی ہیں،ڈنڈی پٹی۔جدید اسلحہ ساتھ رکھتے ہیں۔
گائوں سے لاہور آرہے تھے،ناکے پر پولیس نے گاڑی روک لی،تلاشی لی گئی،اسلحہ نکل آیا،لائسنس پاس نہیں تھے،پولیس تھانے لے گئی۔دوست بتاتے ہیں ملک عمران کی کال سنتے ہیں انہوںنے ایس ایچ او کو کال کی اور کہا کہ انہیں چھوڑ دیں ،اسلحہ رکھ لیں،یہ لائسنس دکھا کر لے جائیں گے۔ایس ایچ او مان گئے لیکن انہوں نے کہا ایس پی کو معلوم ہوگیا ہے ،آپ ذرا انہیں بھی کال کردیں۔ایس پی سے رابطہ کیا گیا وہ مان گئے۔
پولیس نے ملک عمران کو چھوڑ دیا،انہوں نے کوئی دو گھنٹے بعد لائسنس دکھا کر تھانے سے اپنا اسلحہ واپس لے لیا۔دوست بتاتے ہیں یہ انکے لئے معمولی کام تھا،لیکن ملک خاندان اس کو بڑا احسان سمجھتا تھا۔جب بھی کبھی قصہ چھڑتا وہ یہ بات ضرور کرتے،یار آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا تھا۔بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ بتاتے ہیں وہ ایک دن شکار کھیلنے کیلئے ملک عمران کے گائوں چلے گئے۔
انہوں نےبھرپور استقبال کیا،دل کھول کر تواضع کی،ملک عمران کے والد بھی آگئے،عمران نے اپنے والد کو تعارف کرایا،ابو جی ! یہ ہیں میرے دوست شعیب راجہ صاحب،آپکو یاد ہوگا جب لاہور میں پولیس مجھے گرفتار کرکے تھانے لے گئی تھی،انہوں نے رہا کرایا تھا۔میرا تعارف سن کر ملک سلیم کے چہرے پرمسکراہٹ آگئی اور وہ آگے بڑھے مجھے گلے لگالیا، کہنے لگے بیٹا آپ کمال کے آدمی ہیں،آپ میرے بیٹوں کی طرح ہیں۔آپ نے اس دن زبردست کام کیا،ہمیں کوئی ایسی امید نہیں تھی،پولیس کسی کو اسلحے سمیت گرفتار کرلے کب چھوڑتے ہیں۔
راجہ صاحب بتاتے ہیں ملک سلیم ان کے ساتھ بیٹھ گئے،باتیں شروع ہوگئی،وہ مجھے کہنے لگے بیٹا ویسے آپ کام کیا کرتے ہیں ؟ میں نے بتایا،چاچا جی ! ایک صحافی ہوں،وہ بولے، نہیں ،یہ بتائو کام کیا کرتے ہو؟میں ہنس پڑا اور کہا ،چاچا جی ! یہ کام ہی ہے،اخبار میں رپورٹنگ کرتا ہوں۔وہ پھر بولے کتنی تنخواہ لیتے ہو،میں بتانا نہیں چاہتا تھا،لیکن انہوں نے دوبارہ پوچھ لیا۔ دس ہزار لیتا ہوں۔
’’اوپر‘‘ سے کتنے پیسے کما لیتے ہو؟کچھ بھی نہیں۔ کیوں ؟ چاچا جی ! میں کرپشن نہیں کرسکتا،والدین کی تربیت ہے،بس اللہ تعالیٰ کا شکر ہے عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔راجہ صاحب بتاتے ہیں میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئے،جیب سے سگریٹ نکالا،سلگایا،لمبا سا کش لیا،دھواں پورے کمرے میں پھیل گیا۔ بولے سن پتر ! اگر پورا گائوں شرابی ہو اور صرف ایک نمازی ہو،گائوں کے لوگ اس نمازی کو فتنہ کہتے ہیں۔