
تل ابیب(اے ون نیوز) ایران نے ایک بار پھر اسرائیل پر بڑا میزائل حملہ کر دیا ، میزائلوں کے حملے کے بعد تل ابیب اور بیت المقدس میں سائرن کی آوازیں سنائی دیتی رہیں، جس کی وجہ سے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
تل ابیب میں دھماکوں کے بعد دھویں کے بادل چھا گئے، میزائل حملوں میں اسرائیلی جوہری تنصیبات ڈیمونا کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
مقبوضہ شہر حیفہ، تل ابیب اور اور بیت المقدس میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا، تل ابیب میں دھوئیں کے بادل چھا گئے، حملے میں اسرائیل کی کثیر منزلہ عمارت بھی تباہ ہو گئی۔
دوسری جانب اسرائیل نے ایرانی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے شمالی حصے میں ایران کے جنگی طیارے دیکھے گئے ہیں۔جبکہ ایرانی دارالحکومت تہران میں بھی دھماکوں کی آوازیں سنائی دی گئیں۔اسرائیلی فوج کے ترجمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نہیں بتانا چاہتے کہ آیت اللہ خامنہ ای ہمارا نشانہ ہیں۔
اسرائیلی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پر حملے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس بیان کے بعد خطے میں جاری کشیدگی ایک نئے خطرناک مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیلی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا ہے کہ ایران کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے کے تمام آپشنز زیر غور ہیں۔
ایران نے اسرائیل پر نئی میزائلوں کی بارش کر دی ہے اور ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق 100 سے زائد سپر سونک بیلسٹک میزائل اسرائیل کی جانب داغے گئے ہیں۔
ایران کے تازہ حملوں میں اسرائیل کا مقبوضہ شہر حیفہ دھماکوں سے گونج اٹھا ہے، اسرائیلی حکام کے مطابق ایرانی حملے میں شہر کا آسمان روشن ہو گیا، جبکہ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ایک خاتون سمیت 3 صیہونی ہلاک ہو گئے ہیں، جبکہ مجموعی طور پر ہلاکتوں کی تعداد 14 ہو گئی ہے اور 200 سے زائد زخمی ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایرانی حملوں کے بعد سے 35 شہری لاپتہ بھی ہیں۔ایرانی میڈیا نے سیکیوٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل پر عماد، غدر اور خیبرشکن میزائل کا استعمال کیا گیا۔
ایرانی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ حیفہ میں اسرائیل کا ایک بڑا آئل ڈپو اس حملے میں تباہ ہو گیا ہے۔اس کے جواب میں اسرائیلی فضائیہ نے تہران میں متعدد فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایران کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کا سراغ لگا لیا ہے اور شہریوں کو فوری طور پر محفوظ پناہ گاہوں میں جانے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔
اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق مطابق وہ نہ صرف ایران سے آنے والے میزائلوں کو روکنے میں مصروف ہیں بلکہ تہران میں مختلف عسکری تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایران کے دارالحکومت تہران میں اسرائیل کی جانب سے کیے گئے حالیہ فضائی حملوں میں ایرانی وزارتِ دفاع کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا گیا ہے۔
یہ دعویٰ ایک نجی ایرانی نیوز ایجنسی نے بھی کیا ہے، جو اسلامی انقلابی گارڈز کور (IRGC) سے وابستہ ایک میڈیا ادارہ ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق حملہ تہران کے نوبنیاد علاقے میں وزارتِ دفاع کی ایک ہیڈ کوارٹر عمارت پر کیا گیا جس کے نتیجے میں عمارت کو جزوی نقصان پہنچا تاہم جانی نقصان کی تفصیلات فوری طور پر سامنے نہیں آ سکیں۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے تہران میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے ایران پر حملوں میں امریکا براہ راست شریک ہے، اور اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا کر "ریڈ لائن” عبور کر لی ہے۔
عباس عراقچی نے الزام لگایا کہ امریکا کی رضامندی کے بغیر اسرائیلی حملہ ممکن ہی نہیں تھا، اور اس میں امریکی مداخلت کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، حالانکہ امریکا نے ایک مراسلے کے ذریعے حملے سے لاتعلقی کا دعویٰ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے خلیج فارس میں جنگ کا دائرہ وسیع کر سکتے ہیں، اور اگر ایران کو مجبور کیا گیا تو جنگ کو دیگر ممالک تک بڑھانے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ ایران کسی ایسے معاہدے کا حصہ نہیں بنے گا جو اسے جوہری توانائی کے حق سے روکے، اور 60 فیصد سے زائد یورینیم کی افزودگی کا عمل جاری رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر ایک اہم ایرانی شخصیت کو شہید کرکے جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی جارحیت کا نوٹس لے، کیونکہ ان حملوں کا مقصد صرف ایران کو کمزور کرنا نہیں بلکہ خطے میں مکمل جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔