لندن(اے ون نیوز)عالمی شہرت یافتہ فلم ٹائی ٹینک کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے انکشاف کیا ہے کہ بدقسمتی سے کئی بار خبردار کرنے کے باوجود یہ واقعہ پیش آیا، واقعے سے قبل اوشن گیٹ کو ممکنہ خطرات سے خبردار کیا گیا تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جیمز کیمرون جو 1997 میں ریلیز ہونے والی شہرہ آفاق فلم ٹائی ٹینک کی ڈائریکشن سے قبل بذات خود 33 مرتبہ ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے جا چکے ہیں، نے ٹائٹن آبدوز میں ہلاک ہونے والے افراد کو 1912 میں ٹائی ٹینک جہاز کے نقصان سے مشابہ قرار دیتے ہوئے کہا بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
انہوں نے کہا جب 18 جون کو آبدوز لاپتہ ہوئی تو اس وقت وہ بحری جہاز پر تھے، جب مجھے معلوم ہوا کہ آبدوز سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے تو مجھے فوری طور پر بڑے حادثے کا گمان گزرا، میں سمجھ سکتا ہوں کہ آبدوز کے ساتھ کیا ہوا ہوگا ؟ جب آبدوز کا الیکٹرونک سسٹم غیر فعال ہوجائے، رابطہ منقطح ہوجائے اور ٹریکنگ ٹرانسپونڈر بیک وقت ناکام ہوجائیں تو آبدوز اور اس میں سوار لوگوں کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔
کینیڈین نژاد جیمز کیمرون نے کہا آبدوز کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملتے ہی میں نے اپنے ذرائع سے فون پر رابطہ کیا، تقریبا ایک گھنٹے کے اندر مجھے کچھ حقائق ملے جس کے مطابق وہ انتہائی گہرائی میں جا رہے تھے، وہ 3 ہزار 800 میٹر کی گہرائی پر جانے کے لیے اس وقت 3 ہزار 500 میٹر گہرے سمندر میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جب آبدوز سے رابطہ منقع ہوچکا تھا تو میرے ذہن میں فوری طور پر خیال آیا کہ آبدوز implosion کا شکار ہو گئی ہو گی۔
عالمی شہرت یافتہ فلم ڈائریکٹر نے کہا میں جانتا تھا کہ آبدوز وہیں پر موجود ہے جہاں اس میں سوار لوگ جانا چاہتے تھے اور انہیں وہیں سے آبدوز کا ملبہ بھی ملا ہے۔
انہوں نے کہا کمپنی میں کام کرنے والے لوگوں نے نوکری چھوڑ دی لیکن وجہ نہیں بتائی، گہرے پانی میں غوطہ خوری کرنے والے لوگوں میں سے کچھ افراد نے (جن میں وہ خود شامل نہیں ہیں) اوشن گیٹ کو خط بھی لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ تباہی کے راستے پر جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اوشن گیٹ کے سابق ملازم نے 2018 میں ہی خبردار کردیا تھا کہ آبدوز کو حفاظتی مسائل کا سامنا ہے۔ اس لحاظ سے جیمز کیمرون پہلے شخص نہیں ہیں جنہوں نے آبدوز کا گہرے پانی میں جانے کے تجربے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
19 جون کو ٹائی ٹینک جہاز کی باقیات کو دیکھنے کے لیے جانے والی 21 فٹ کی چھوٹی آبدوز سے ہر قسم کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا جو شمالی بحر اوقیانوس کی سطح سے دو میل (تقریباً چار کلومیٹر)گہرائی میں موجود تھی۔
ٹائٹن نامی آبدوز امریکا میں قائم کمپنی اوشن گیٹ ایکسپیڈیشن چلاتی ہے جس کی خصوصیات کے مطابق اسے 96 گھنٹے تک زیر آب رہنے کے لیے بنایا گیا تھا
لاپتہ ہونے والی آبدوز میں اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین اور پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد، ان کا 19 سالہ بیٹا سلیمان، برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی ایکسپلورر پال ہنری نارجیولٹ، اوشین گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش اس آبدوز پر سوار تھے۔
آبدوز کی تلاشی کے لیے امریکی کوسٹ گارڈ نے ریسکیو آپریشن شروع کیا جو 5 روز تک جاری رہا، آبدوز میں موجود افراد کے پاس آکسیجن کی اضافی سپلائی 22 جون کو پاکستانی وقت کے مطابق چار بجے ختم ہوگئی تھی۔
امریکی کوسٹ گارڈ کی جانب سے گزشتہ روز تصدیق کی گئی تھی کہ لاپتہ آبدوز ٹائٹن کی تلاش کے دوران سمندر کی تہہ میں ٹائی ٹینک کے قریب سے کچھ ملبہ ملا ہے، ٹائٹن آبدوز میں سوار مسافروں کے ایک دوست اور ڈائیونگ ماہر ڈیوڈ میرنز نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس ملبے میں ٹائٹن آبدوز کا لینڈنگ فریم بھی شامل ہے۔
لاپتہ آبدوز کی مالک کمپنی اوشن گیٹ نے اس کے بعد گزشتہ شب (پاکستانی وقت کے مطابق) دو پاکستانیوں سمیت پانچوں افراد کی موت کی تصدیق کردی تھی۔
بی بی سی نے عدالتی دستاویزات کے حوالے سے بتایا ہے کہ کہا گیا تھا کہ آبدوز کو جانچ کی ضرورت ہے، موجودہ حالت میں جب یہ انتہائی گہرائیوں تک پہنچے گی تو مسافروں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
مارچ 2018 میں میرین ٹیکنالوجی سوسائٹی کی طرف سے اوشن گیٹ کو بھیجے گئے ایک خط میں بھی ٹائی ٹینک کے قریب لاپتہ ہونے والی آبدوز کی کمزور سیفٹی پر خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔
اوشن گیٹ کے شریک گولیرمو سوہلین نے آبدوز کے حفاظتی خدشات کے حوالے سے کمپنی پر کی گئی تنقید اور الزامات کو یکسر مسترد کردیا۔
بی بی سی ریڈیو 4 کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ فلم ڈائریکٹر جیمز کیمرون سمیت ٹائٹن کی حفاظتی خدشات پر تبصرہ کرنے والے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔