وزیراعظم شہباز شریف نے کہہ دیا ہے کہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد الیکشن نہ ساٹھ دن کے اندر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی نوے دن کے اندر۔
انتخابات کا وقت پر ہونا پہلے ہی مشکوک تھا لیکن اب تو یقین ہو چلا ہے کہ انتخابات کم از کم اس سال تو نہیں ہونے والے۔ نگراں حکومت تو دس پندرہ دن تک آ جائے گی لیکن کتنا عرصہ چلے گی، اس بارے میں کسی کو کوئی کچھ پتا نہیں۔ اب تو یہ بھی باتیں کی جا رہی ہیں کہ ہو سکتا ہے نگراں سیٹ اپ دو سال تک چلے۔
اس بارے میں تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی کرسی پر بیٹھنے والے راجہ ریاض نے بھی ایک ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں بات کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف سے جب پوچھا گیا کہ کیا نئی مردم شماری کی بنیادپر انتخابات کرانے کی وجہ سے انتخابات التوا کا شکار نہیں ہوں گے ،اس پر اُنہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ تو الیکشن کمیشن کرے گا۔
وزیرِ قانون نے کچھ دن پہلے اس معاملے پر بات کرتے ہوے کہا کہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانے سے الیکشن کوئی چھ آٹھ ہفتہ تک ہی آگے جائیں گے۔ تاہم الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کروانے کے فیصلے پر نئی حلقہ بندیاں کرنا لازم ہوگا جو کوئی چار پانچ ماہ کا پراسس ہے۔
لیکن یہاں تو مردم شماری کے متعلق نئے نئے جھگڑے جنم لے رہے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ تر صوبے 2023کی ڈیجیٹل مردم شماری سے مطمئن نہیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں بشمول ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کا تو یہ مطالبہ بھی سامنے آچکا کہ پہلے درست مردم شماری کریں اور پھر اُس کی بنیاد پر الیکشن کروائیں۔
مردم شماری کرنے والے ادارے (پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹک) کی طرف سے تو 2023 کی مردم شماری مکمل ہو چکی ، اس کا آڈٹ بھی ہوچکا اور اب تو اس معاملہ کو مشترکہ مفادات کونسل (Council of Common Interest) کے سامنے منظوری کے لئے پیش کرنا ہے جس کا عندیہ وزیراعظم کے ساتھ ساتھ وزیر قانون بھی دے چکے ہیں۔
امید کی جا رہی ہے کہ نئی مردم شماری کی منظوری کے لئے جلد ہی مشترکہ مفادات کونسل کی میٹنگ بلائی جائے گی۔ اگر وزیراعظم کے کہے کے مطابق کونسل اس مردم شماری کی منظوری دے دیتی ہے تو پھر الیکشن التوا کا شکار ہوں گے اور یہ التوا کوئی ایک دو مہینوں کا نہیں بلکہ لمبا ہو سکتا ہے۔
ممکنہ طور پر چند سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی صوبائی حکومت بھی نئی مردم شماری اور اس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کو چیلنج کرنے کے لئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے، جس سے معاملہ مزید طول پکڑ جائے گا۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں یہ خدشات موجود ہیں کہ الیکشن شاید وقت پر نہ ہوں اور نگراں سیٹ اپ لمبا چلے۔
لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومتی اتحاد ایسا نہیں چاہتا تو پھر وزیراعظم نے ایسی بات کیوں کی اور یہ بھی کہ حکومت نئی مردم شماری کی منظوری کے معاملے کو آئندہ کی حکومت کے لئے کیوں نہیں چھوڑ جاتی۔
اگر شہباز شریف سب کچھ جانتے بوجھتے نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کی بات کر رہے ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ اس بارے میں اُن کی بات میاں نواز شریف سے نہ ہوئی ہو۔ اگر مشترکہ مفادات کونسل 2023 کی مردم شماری کی منظوری دے دیتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ منظوری تمام وزرائے اعلیٰ بشمول پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی حمایت سے ہی ممکن ہوگی۔
ایسی صورت میں انتخابات کا التوا، چاہے وہ کتنے عرصہ کے لئے ہی ہو، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مرضی سے ہی ہوگا۔ یہ کیا سیاست ہے؟ اس کے پیچھے کون کون اور کس کس کے ذاتی مفادات چھپے ہیں؟ ان سوالات کا جواب شاید ابھی کسی کو معلوم نہیں لیکن جیسا کہ وزیراعظم نے کہا اگر ویسا ہی ہوتا ہے تو پھر ان سوالوں کے جواب بھی تلاش کئے جائیں گے۔ فی الحال وقت پر انتخابات کا ہونا مشکوک ہو گیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
نوٹ ،اے ون ٹی وی اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں03334049991پر ویٹس اپ کریں۔