لاہور(فلم رپورٹر)ماضی کے نامور اداکار افضال احمد طویل علالت کے بعد 80 برس کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں۔
انہیں گزشتہ روز انتہائی تشویشناک حالت میںجنرل ہسپتال داخل کرایا گیا تھالیکن وہ جانبر نہ ہوسکے ۔ 21 سال قبل 22 نومبر 2001 جمعہ کے روز برین ہیمرج ہوا تھا اوران کو فوری طور پر شیخ زید اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا جہاں وہ کافی عرصہ زیر علاج رہے برین ہیمرج کے بعدمرتے دم تک وہ بول نہیں سکے۔
افضال احمد نامور اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ تماثیل تھیٹر کے مالک بھی تھے .افضال احمد نے 1968ءاور 2012ءکے درمیان 384 سے زائد فلموں میں کام کیا۔انہوں نے فلمی کیریئر کی شروعات پاکستانی لولی وڈ فلم ” دھوپ اورسایہ“ سے کی۔ جو 1968ء میں ریلیز ہوئی، 60ءکی دہائی میں اپنی آواز کے ذریعے اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کی چند سپر ہٹ فلموں میں ”ہاشو خان، انسان اور گدھا، پہلاوار، خبردار، سدھا رستہ، سستا خون مہنگا پانی، بابل صدقے تیرے، شریف بدمعاش، وحشی جٹ،بلندی ہتکھڑی، شوکن میلے دی، دو سوہنی مہیوال، جیرا سائیں، حاجی کھوکھر، رنگا ڈاکو، گوگا شیر، وحشی گجر، قربانی، چن وریام، مفت بر،دہلیز، قانون شکن، چڑھدا سورج، دیس پردیس، لگان، عجب خان، غلامی، باغی سپاہی، یہ آدم، پتر جگے دا“ اور ”ریاض گجر“ کے علاوہ بھی بے شمار فلمیں ہیں جن میں انہوں نے کام کیا۔
فلم انڈسٹری پر کئی عشروں تک راج کرنے والے افضال احمد نے جہاں فلموں میں اداکاری کے اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں وہیں ان کی تھیٹر کے لیے خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے پاکستان میں تھیٹر کونئی جہت دی اور جدید تھیٹر روشناس کرایا۔ وہ پاکستانی سٹیج ڈراموں کو عالمی معیارتک لے جانے کے خواہش مند تھے مگر 22 نومبر 2001ءکو فالج کے حملے نے ان کی آواز کو متاثر کر دیا تاہم وہ قوت گویائی سے محروم ہونے کے باوجود تھیٹر کی ترقی و ترویج کےلئے پرعزم رہے۔ مرحوم نے ایچی کالج اور این سی اے میں تعلیم حاصل کی تھی ان کا تعلق جھنگ کی سید فیملی سے تھا۔
تماثیل کے ریسٹورنٹ کا شیش محل افضال احمد بہت شوق سے بنوایا تھا۔ تماثیل تھیٹر ان کی والدہ اور افضال احمد اور ان کی برسوں کی محنت اور کوششوں کی بدولت وجود میں آیا۔ افضال احمد نے پاکستان میں جدید تھیٹر کے قیام کے لئے شب و روز محنت کی۔ تھیٹر کی تعمیر کے دوران وہ اکثر شوٹنگ میں مصروف ہوتے تو والدہ تمام کاموں کی نگرانی کیا کرتی تھیں۔ ان کے تھیٹر میں پہلا ڈرامہ”محبتوں کے مسافر“ کا پیش کیا گیا جس کی ڈائریکٹر تجمل ظہوربالم تھے۔ اس ڈرامے کو شائقین کی جانب سے بہت پزیرائی ملی تاہم کچھ عرصے بعد جب اداکار امان اللہ اور دیگر فن کاروں کی ایک الگ ٹیم بن گئی تو آرٹسٹوں کی عدم دستیابی کے باعث تین برس تک تھیٹر کو نقصان برداشت کرنا پڑا۔ پھر افضال احمد نے آغا حسن امتثال، ناصر ادیب اور محمد پرویز کلیم سے”جنم جنم کی میلی چادر“ کا سکرپٹ تیار کروایا وہ سکرپٹ لکھوانے کے لئے تینوں مصنفین کو الگ الگ بٹھانے کا اہتمام کرتے تھے۔
انہوں نے ڈرامے کے لیے نئے فن کاروںپر محنت شروع کی۔ ڈرامے کی 6 ماہ تک ریہرسل ہوتی رہی اس دوران تمام فنکاروں کو معاوضہ باقاعدگی کے ساتھ ادا کیا جاتا رہا، جب ڈرامے کو پیش کیا گیا تو کامیابی کا ریکارڈ قائم گیا ہو جسے آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ انہوں نے اس کے علاوہ بھی بہت سے ناقابل فراموش ڈرامے پروڈیوس کئے۔ افضال احمد نے تھیٹر کے فروغ کے لیے بہت کچھ کیاوہ اور بھی زیادہ کرنا چاہتے تھے انہوں نے لائیٹ افیکٹس اور تھیٹر کی ڈیزائننگ کے لئے آسٹریلیااوربرطانیہ کے ماہرین کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سردار کمال ،عجب گل ،مدیحہ شاہ ،میگھا،چاندنی ، سخاوت ناز اور بہت سے فنکاروں کو ایک بڑا پلیٹ فارم مہیا کیا تاہم فالج کے اٹیک نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا اور ان کے کئی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ نہ پائے۔
افضال احمد کو شروع شروع میں توان کی عیادت کے لئے فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ آتے تھے مگر آہستہ آہستہ ان کی توجہ کم ہو گئی۔سینئر اداکارہ بہار بیگم کے ساتھ افضال احمد کا معاشقہ ان کی شادی شدہ زندگی کے خاتمے کا باعث بنا۔خواجہ پرویز اور محمد جاوید فاضل ان کے گہرے دوست تھے۔ خواجہ پرویز مرحوم جب بھی ان سے ملنے گھر آتے تو کسی نہ کسی گلوکار کو ساتھ لے کر آتے اور گھر میں موسیقی کی محفل سج جاتی۔ اداکار محمد علی مرحوم بھی جب تک حیات رہے ان کی خبر گیری کرتے رہے۔ ندیم بیگ جب کبھی لاہور آتے ہیں وہ ان سے ضرور ملتے تھے۔
ہدایت کار سید نور اور عرفان کھوسٹ نے انہیں کبھی فراموش نہیں کیا وہ ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ سید نور نے انہیں اپنی دوفلموں میں کاسٹ کیا۔ سید نور کی فلم ”شریکا “میں شائقین نے ان کی پرفارمنس کو بہت سراہا گیا۔مرحوم کا آخری ڈرامہ ”تم یہی کہنا“کے رائٹر خلیل الرحمن قمر اور ڈائریکٹر دلاور ملک تھے۔افضال احمد کی اکلوتی اولاد ان کی بیٹی سابقہ بیوی کے ہمراہ کئی برس سے بیرون ملک مقیم ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے افضال احمد مرحوم کی اداکاری کے شعبہ میں خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ افضال احمد منجھے ہوئے اداکار تھے،افضال احمد مرحوم نے اردو اورپنجابی فلموں میں اپنے فن کا سکہ جمایااورفلموں میں اپنی لازوال اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے۔
اللہ تعالی مرحوم کی روح کو جوار رحمت میں جگہ دے اور غمزدہ خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔مریم اورنگزیب ،سینئر اداکار مصطفی قریشی ، ندیم بیگ، غلام محی الدین، جاوید شیخ، سلیم شیخ، قوی خان ، شاہد ، شان، بابر محمود، معمر رانا، سنگیتا بیگم، بہار بیگم، افضل خان، صاحبہ، ریما ، ثنا، ریشم ، سہیل احمد، افتخار ٹھاکر، نسیم وکی ، بہروز سبزی واری سمیت دیگر نے افضال احمد کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لازوال اداکاری سے اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔
افضال احمد نے فلموں میں جو بھی کردار نبھایا وہ امر ہو گیا اور خاص طو رپر منفی کرداروں میں انہوں نے ایک معیار مقرر کر دیا جو آج بھی ان کے پرستاروں کے ذہنوں پر نقش ہے ۔افضال احمد کا اسٹیج ڈرامہ جنم جنم کی میلی چادر دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی شاہکار اسٹیج ڈرامے کے طور پر لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے ۔ شوبز شخصیات نے کہا کہ خدا کی ذات سے دعا ہے کہ وہ افضال احمد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔