اہم خبریںبلاگتازہ ترین

‏لاشیں کہاں گئیں؟ …تجزیہ/رئوف کلاسرا

لاہور سے ایک دوست نے میسج کر کے پوچھا سوشل میڈیا پر چل رہا ہے آپ کے شہر میں 219 لوگ سیکورٹی فورسز ہاتھوں مارے گئے ہیں۔میں نے کہا لیکن لطیف کھوسہ نے 278 کا نمبر حامد میر کے شو میں تو شیخ وقاص اکرم نے کاشف عباسی کو 100 بتایا۔

یہ یقینا بڑے دکھ کی گھڑی ہے چاہے ایک انسان کی جان بھی ضائع ہوئی ہو۔اس کے گھر والے ساری عمر اس دکھ سے نہیں نکل پائیں گے۔اس آپریشن کی مذمت ہونی چاہیے کہ لوگوں کا پرامن احتجاج کرنا حق ہے۔

اب مختلف دعوے ہورہے ہیں کتنے لوگوں کی جان گئی۔حکومت دس بارہ کہہ رہی ہے تو پی ٹی آئی دو تین سو سے کم ماننے کو تیار نہیں۔

مرنے والوں کا دکھ الگ لیکن آپ کا 219 منا لیں کہ ایک گھنٹے آپریشن میں بندوں کی لاشیں جناح ایونیو اسلام آباد پر پڑی ہوتیں تو ایک حشر برپا ہوتا۔اسلام آباد جیسا شہر ایک قیامت کا سا منظر پیش کرتا۔ہرایک کے پاس موبائل فون ہیں،کوئی ایک فوٹیج بھی نہیں دو تین سو لاشیں سڑک پر پڑی ہیں اور لوگ گزر رہے ہیں اور کوئی ویڈیو نہیں بنا رہا۔
کتنی بھی بڑی طاقتور بے رحم حکومت ہو وہ ایک گھنٹے میں دو تین سو بندے فائرنگ میں مار کر ان کی لاشیں اٹھا کر غائب نہیں کرسکتی۔ جن بھوت بھی نہیں کر سکتے۔

جونہی بشری اور گنڈاپور ڈی چوک سے اپنے ورکرز کو نہتا اور پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ بھاگے ہیں اس کے ٹھیک ایک ڈیرہ گھنٹے بعد تو محسن نقوی اور عطا تارڑ پریس سے اسی ڈی چوک میں بات چیت کررہے تھے جہاں پی ٹی آئی کے بقول دو تین سو بندہ مارا گیا تھا۔ میڈیا چینلز کے لوگ وہاں موجود تھے۔ ڈی چوک کھل چکا تھا۔ شہر کی ٹریفک بحال ہوچکی تھی۔

اگر جناح ایونیو ڈی چوک پر وہاں لاشیں تھیں تو پوری رات لگنی تھی کلیر کرنے میں۔ حکومت ڈی چوک اور جناح ایونیو بند رکھتی اسے فورا نہ کھول دیا جاتا۔

مطلب حکومت نے ایک گھنٹے میں دو تین سو بندے بھی مار دے، ہزاروں کا مجمع بھی منشتر کر دیا، سب کی لاشیں بھی غائب کر دیں، سڑک پر ڈھائی تین سو لوگوں کے بہتے لہو کو پانی سے دھو بھی دیا جیسے بینظیر بھٹو کا دھویا گیا تھا، کسی میڈیا کے بندے کو پتہ بھی نہیں چلنے دیا اور ایک گھنٹے میں سب کچھ نارمل کر کے میڈیا سے دو اہم وزیر باتیں بھی کررہے تھے جہاں پاکستانی چینلز کے رپورٹرز اور کیمرے مین بھی موجود تھے؟

موبائل فونز سے لدے پھندے اینکرز، یوٹیوبرز اور میڈیا پرسنز کو بھی پتہ نہ چلا اور ان کی آنکھوں کے سامنے دو تین سو لاشیں غائب بھی ہوگئیں؟ لاشیں اٹھانے والے بھی ان تین سو لاشوں کا ایک کلپ نہ بنا سکے۔

کسی ایک کا بھی ضمیرر انسانی لہو دیکھ کر نہیں جاگا کہ وہ اب تک سامنے آکر اس ظلم عظیم کی خوفناک کہانی سناتا؟
آپ کو علم ہے دو ڈھائی سو لاشیں اٹھانے اور خون صاف کرنے کے لیے کتنی مین پاور یا لاجسٹک سپورٹ اور وقت درکار ہے۔ کہیں نہ کہیں بلیو ایریا سڑک پر تو ان دو تین سو انسانوں کا لہو پڑا ہوگا،بلیو ایریا کی سڑک پر لہو کی ندیاں بہہ رہی ہوتیں۔کسی نے موبائل فون سے کچھ بنایا ہوگا۔ باقی اس دھرنے کا ایک ایک لحمے کا کلپ موجود ہے لیکن دو تین سو انسانی لاشوں کا نہیں ہے۔ اب سب سوشل میڈیا کے فوٹو شاپس کی گئی جعلی پکس پر انحصار کررہے ہیں۔ چوبیس چھتیس گھنٹوں بعد بھی چند مقتولین کے ورثا کے علاوہ کسی کا ولی وارث سامنے نہیں آیا۔ وہ دو تین سو مظلوم خاندان کہاں ہیں جن کے معصوم لوگ مارے گئے ہیں۔ چوبیس چھبیس گھنٹے بعد تو سامنے آتے اور اپنا اتنا بڑا غم ہم سے شئر کرتے۔

کوئی کتنا بھی قابل اور بے رحم ہو وہ اسلام آباد جیسے چھوٹے سے شہر میں ایک گھنٹے میں دو تین سو بندے مار کر سڑکیں لہو سے صاف کر کے ساری لاشیں غائب نہیں کرسکتا۔ ہماری حکومتیں اور ادارے ظالم، بے رحم اور نالائق ہوسکتے ہیں لیکن اتنے قابل ہرگز نہیں۔اگر ہوتے تو یقین کریں آج ہم سپر پاور ہوتے۔

اگر پی ٹی آئی کا فگر مان لیا جائے کہ فائرنگ میں تین سو بندہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو پھر اس لیول کی فائرنگ اور وہاں موجود ہزاروں ورکرز کی موجودگی میں زخمیوں کی تعداد کم از کم پانچ ہزار ہونی چاہیے۔اگر لاشیں حکومت نے غائب کر دی ہیں تو ان مظلوم زخمیوں کو تو سامنے لایا جائے اور ظالم اور بے رحم حکومت کے اس عظیم انسانی ظلم پر پوری قوم مل کر ایسا حتجاج کرے جو تاریخ میں یاد رکھا جائے۔

جب آپ غلط فگر دیں گے تو حکومت کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ آسانی سے اسے جھوٹ قرار دے کر جان چھڑا لے۔ میں نے صحافت سے ایک بات سیکھی ہے کہ اگر آپ کا ایک فیصد فیکٹ بھی غلط ہے تو آپ کے مخالف آپ کے 99 فیصد سچ کو بھی جھوٹا ثابت کر دیں گے۔

غلط فگر دے کر آپ ان ورکرز ساتھ زیادتی کررہے ہیں جنہوں نے جانیں دی ہیں اور تین سو لاشوں کے بوجھ تلے غائب ہوگئے ہیں جنہیں سب تلاش کررہے ہیں۔ان مظلوموں کا ذکر تک نہیں کررہا۔ غلط فگر دے کر آپ صرف حکومت اور اداروں کا کام آسان کررہے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button