راولپنڈی(اے ون نیوز)سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں صحافیوں اور وکلاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری پارٹی کو ہدایت کرتا ہوں کہ 8 فروری کو یوم سیاہ منایا جائے۔ اس کی تیاریاں آج سے ہی شروع کی جائیں۔ جس شخص نے تحریک انصاف سے بلے کا نشان اور الیکشن چھیننے کی کوشش کی وہ تاریخ کے تاریک قبرستان میں گم ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی مدت بھی کل ختم ہو رہی ہے۔ اگر آرٹیکل6 اس ملک میں کسی پر لگنا چاہیے تو وہ سکندر سلطان راجہ ہے ۔ اس نے عوام کے مینڈیٹ کو چوری کیا اور قاضی فائز عیسی نے اس انتخابی فراڈ کو تحفظ فراہم کیا۔
ہمارا مقصد پاکستان میں شفاف انتخابات،آئین اور جمہوریت کی بحالی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں ملک میں جمہوریت بحال ہو اور قانون کی حکمرانی واپس آئے ۔ملک میں معطل بنیادی انسانی حقوق دوبارہ بحال ہوں۔
سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونا قابل مذمت ہے۔ اگر ہاؤس اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتا تو میں یہ کہنے میں مکمل حق بجانب ہوں کہ پاکستان میں جمہوریت، آئین اور قانون کا مکمل جنازہ نکل چکا ہے۔
عدلیہ ، پولیس ، ایجنسیوں، ایف آئی اے سب کو اپنے اصل کاموں سے ہٹا کر صرف اور صرف تحریک انصاف کو کچلنے پر لگا دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک آمر کا حکم ہی ملک میں قانون ہے، جبکہ آئین اور منتخب نمائندوں کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ۔
انصاف کی فراہمی کسی بھی مملکت کو چلانے کے لئے بنیادی تقاضہ ہوتا ہے ۔ مگر یہاں 26 ویں آئینی ترمیم کر کے عدلیہ کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے ہیں ۔پاکستان کی اعلی ترین عدالت کو نگیں کر دیا گیا ہے اور کورٹ پیکنگ( ججز کی تعداد میں اضافہ ) کی جا رہی ہے۔ صرف مجھے سزا دینے پر ججز کو نوازا جا رہا ہے اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکا تقرر کیا گیا ہے۔
قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ میں انصاف کا بالکل قتل عام کر کہ رکھ دیا تھا ۔ اس کے بعد عدلیہ سے انصاف کی توقع ختم ہو چکی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ بنیادی شہری اور انسانی حقوق کا دفاع کرے۔ سویلین کے ملٹری ٹرائل کی بین الاقوامی اور ملکی قوانین میں کوئی گنجائش نہیں ۔
ہمارا دوسرا مطالبہ ہے کہ 26 نومبر اور نو مئی کے واقعات کی جوڈیشل کمیشن کے ذریع آزاد انکوائری کروائی جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ ان واقعات کا ماسٹر مائنڈ کون ہے۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے نو مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیج غائب کی ہے۔
حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کی مخالفت کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی، ماسوائے اس کے کہ وہ خود اس واقع میں شامل ہے۔ میں نے اسد قیصر اور عمر ایوب کو اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کر کے انہیں مذاکراتی عمل اور ہماری سیاسی پوزیشن سے متعلق اعتماد میں لیا جائے۔
فارم 47 کے تحت وجود میں آنے والی حکومت عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتی۔ پورے پاکستان میں بلوچستان ماڈل نافذ کر دیا گیا ہے ۔ جب تک بلوچستان میں منتخب لوگوں کی حکومت نہیں آئے گی حالات پرسکون نہیں ہوں گے۔ بلوچستان میں ریاستی ظلم قابل مذمت ہے۔ عوامی مسائل کا حل کبھی بھی بندوق اور فوج نہیں ہوتا، یہی معاملہ اب باقی ماندہ ملک کا بھی ہے۔
مجھ پر دباؤ ڈالنے کے لیے القادر جیسے جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں۔ پاکستان میں جنہوں نے اربوں روپے چوری کئے وہی حکمران بن گئے ہیں صرف اس لیے کہ انہوں نے ڈیل کی۔ نواز شریف کے بیٹے نے نو ارب کا فلیٹ ملک ریاض کو 18 ارب روپے میں بیچا۔ سوال تو یہ ہے کہ نواز شریف کے بیٹے کے پاس نو ارب روپے کہاں سے آئے؟ پانامہ میں ان سے جو رسیدیں مانگی گئیں وہ آج تک نہیں دی گئیں۔
قاضی فائز عیسی کے ساتھ مل کر حدیبیہ پیپر ملز میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ معاف کروائی گئی۔ نیب ترامیم بحال کر کے قاضی فائز عیسی نے میوچل لیگل اسسٹنس کی قانونی حیثیت کو ختم کیا کیونکہ وہ خود اس کے بینیفیشری تھے۔
قاضی فائز عیسی کی لندن میں جو پراپرٹیز ہیں اس کا انہوں نے حساب نہیں دیا۔ نواز شریف کے پاس نو ارب روپیہ کہاں سے آیا اس کا ہم حساب مانگتے ہیں۔ یہ مافیا ایک دوسرے کی کرپشن بچانے کے لیے ہمیشہ ایک ہو جاتا ہے۔
یہی پاکستان کے سٹیٹس کو اور تحریک انصاف میں فرق ہے۔ مجھے بھی ڈیل آفر ہوئی مگر جب میں نے کوئی چوری ہی نہیں کی تو سمجھوتا کیوں کروں؟ میں آخری دم تک ڈیل نہیں کروں گا۔