اہم خبریںتازہ تریندنیا

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین کے 2 ریاستی حل کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور

نیو یارک(اے ون نیوز)اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) نے جمعہ (12 ستمبر) کو نیو یارک ڈیکلریشن کی حمایت میں ووٹ دیا، یہ قرارداد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کو نئی زندگی دینے کی کوشش ہے، تاہم اس میں حماس کا کوئی کردار شامل نہیں ہوگا۔

قرارداد کو 142 ووٹوں سے منظور کیا گیا، 10 ووٹ مخالفت میں (بشمول اسرائیل اور امریکا) ڈالے گئے جبکہ 12 ممالک نے غیرحاضری اختیار کی، قرارداد میں حماس کی مذمت اور گروپ سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا۔

اگرچہ اسرائیل تقریبا 2 سال سے اقوامِ متحدہ کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے کہ انہوں نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کی مذمت نہیں کی، لیکن فرانس اور سعودی عرب کی پیش کردہ اس قرارداد میں کسی قسم کا ابہام باقی نہیں رہا۔

فلسطین کے مسئلے کے پرامن حل اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے نیو یارک ڈیکلریشن کے متن میں کہا گیا کہ حماس کو تمام یرغمالیوں کو آزاد کرنا ہوگا اور جنرل اسمبلی 7 اکتوبر کو عام شہریوں پر حماس کے حملوں کی مذمت کرتی ہے۔

مزید کہا گیا کہ غزہ کی جنگ کے خاتمے اور اسرائیل فلسطین تنازع کے منصفانہ، پرامن اور پائیدار حل کے لیے اجتماعی اقدام ناگزیر ہے، جو دو ریاستی حل کے مؤثر نفاذ پر مبنی ہو۔

یہ اعلامیہ، جس کی پہلے ہی عرب لیگ توثیق کرچکی ہے اور جولائی میں 17 رکن ممالک (جن میں کئی عرب ممالک بھی شامل ہیں) نے اس پر دستخط کیے تھے، صرف حماس کی مذمت پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اسے مکمل طور پر غزہ کے مستقبل سے الگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

متن کے مطابق غزہ کی جنگ کے خاتمے کے تناظر میں، حماس کو غزہ پر اپنی حکمرانی ختم اور ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے ہوں گے، بین الاقوامی شمولیت اور تعاون کے ساتھ، تاکہ ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے مقصد کو حاصل کیا جا سکے۔

یہ ووٹنگ اقوامِ متحدہ کے آئندہ اجلاس سے پہلے ہوئی ہے جو 22 ستمبر کو ریاض اور پیرس کی مشترکہ میزبانی میں نیویارک میں منعقد ہوگا، اس اجلاس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے وعدہ کیا ہے کہ وہ باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے۔

ادھر، انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے یو این ڈائریکٹر رچرڈ گوون نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ بات اہم ہے کہ آخرکار جنرل اسمبلی نے ایسی قرارداد منظور کی، جو براہِ راست حماس کی مذمت کرتی ہے، چاہے اسرائیلی یہ کہیں کہ یہ بہت کم اور تاخیر سے ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب کم از کم وہ ریاستیں جو فلسطینیوں کی حمایت کرتی ہیں، اسرائیلی الزامات کو رد کرسکتی ہیں کہ وہ بالواسطہ طور پر حماس کی حمایت کر رہی ہیں، یہ اسرائیلی تنقید سے بچاؤ کے لیے انہیں ایک ڈھال فراہم کرتی ہے۔

فرانسیسی صدر کے علاوہ کئی دیگر عالمی رہنماؤں نے بھی اس اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کرچکے ہیں، یہ اقدامات اسرائیل پر غزہ میں جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی کوشش سمجھے جا رہے ہیں۔

نیو یارک ڈیکلریشن میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ غزہ کی تباہ حال صورتحال میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت ایک عارضی بین الاقوامی استحکام مشن تعینات کیا جائے تاکہ فلسطینی شہری آبادی کی مدد کی جا سکے اور سیکیورٹی کی ذمہ داریاں فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کی جا سکیں۔

اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے تقریبا تین چوتھائی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔

تاہم، 2 سالہ جنگ نے غزہ کو تباہ کر دیا، اس کے علاوہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع اور اسرائیلی حکام کی جانب سے اس علاقے کو ضم کرنے کی خواہش نے خدشات کو بڑھا دیا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کا وجود اب ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے جمعرات (11 ستمبر) کو کہا تھا کہ ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے جس میں کوئی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی۔

دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کی نیویارک میں ہونے والے اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت مشکوک ہے کیونکہ امریکی حکام نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی صدر کو ویزا جاری نہیں کریں گے۔

قبل ازیں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سخت جملوں کا بھی تبادلہ ہوا، پاکستان نے قطر میں حماس رہنماؤں پر حالیہ اسرائیلی حملے کو ’غیر قانونی، بلا اشتعال اور خطے کے استحکام کے لیے خطرہ‘ قرار دیا۔

پاکستان کے مستقل مندوب برائے اقوام متحدہ عاصم افتخار احمد نے اپنے خطاب کا آغاز اسرائیلی حملے کی سخت مذمت سے کیا اور اسے قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور ’ڈھٹائی پر مبنی اور غیر قانونی کارروائی‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ غیر قانونی اور ڈھٹائی پر مبنی حملہ کوئی الگ واقعہ نہیں بلکہ اسرائیل کی جارحیت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے ایک بڑے اور مستقل سلسلے کا حصہ ہے جو خطے کے امن و استحکام کو کمزور کرتا ہے‘۔

واضح رہے کہ غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق اس جنگ میں اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت عام شہریوں کی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button