مرد حر جناب آصف علی زرداری کا قول شریف ہے ’’ وعدے کوئی قرآن حدیث نہیں ہوتے ‘‘۔عنقریب ان کو یہ قول سنایا جائے گا،پھر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں رہے گی۔اکثر اپنے بولے ہوئے الفاظ ہی انسان کےگلے پڑ جاتے ہیں۔کہتے ہیں جب تک انسان کو مکمل شعور حاصل نہ ہو ہوجائے اسے اپنا منہ صرف کھانے،پینےکیلئے ہی استعمال کرنا چاہیے۔
ن لیگ کو نگران وزیراعظم بنانے کیلئے پیپلز پارٹی یا دیگر کسی پارٹی کی ضرورت نہیں ہے،وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے ہی نگران وزیراعظم کا تقرر کرنا ہے،حالانکہ آئین اور قانون معطل ہوچکا لیکن پھر بھی مرضی کے مطابق آئین استعمال کیا توجاسکتا ہے۔زرداری یا فضل الرحمٰن سے مشورہ تو صرف اتحادی ہونے کے ناطے کیا جارہا ہے ورنہ صرف راجہ ریاض ہی کافی ہے اور راجہ ریاض تو آجکل شریف خاندان کاچمچہ بنا ہوا،ن لیگ کے ٹکٹ پر ہی اس نے الیکشن لڑنا ہے۔
آج تک کیلئے تو یہی فائنل ہے،آنے والے دنوں میں کچھ تبدیل ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا،عام انتخابات نہیں ہورہے،نگران حکومت کو لمبا چلانے کا پروگرام ہے ۔اس کیلئے ن لیگ اپنا وزیراعظم لانا چاہتی ہے تاکہ ’’لندن پلان‘‘ کی مکمل تکمیل ہوسکے۔اس کا انہوںنے آغاز کردیا ہے،نگران حکومت اور وزیراعظم کو بااختیار بنانے کا بل منظور کرلیا گیا ہے۔وزیراعظم کے پاس ایک منتخب وزیراعظم جتنے اختیارات ہونگے۔اسحاق ڈار کا نام پارٹی قیادت نے باہر نکالا تھا،صرف ردعمل دیکھنے کیلئے۔
کچھ اطلاعات ہیں مریم نواز نے متحدہ عرب امارات کے طویل دورے کے دوران عرب عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کرکے کچھ وعدے وعید کئے ہیں،اسحاق ڈار کا نام ان عہدوپیمان کی ایک کڑی ہے۔امارات کو لمبے عرصے کیلئے کراچی کا ٹرمینل بغیر بولی کے دے دیا گیا،ابھی کچھ ائیرپورٹ بھی دینے ہیں،امارات کو بھی ڈار کی ضرورت ہے۔یاد آیا امارات کو ڈار نے ہی پی ٹی سی ایل دی تھی،ایسے ہی جیسے میاں منشا کو ایم سی بی بغیر پیسوں کے دیا تھا۔ظاہر ہے امارات اسحاق ڈار کو ہی نگران وزیراعظم بنانے کیلئے سفارش کرے گا۔دبئی میں زرداری اور نواز شریف کی لمبی ملاقات ہوئی،لیکن نگران وزیراعظم بنانے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔
ایسے ہی ہونا ہے اچانک شہباز نے راجہ ریاض سے ملکر اپنی مرضی کے نگران وزیراعظم کا تقرر کردینا ہے،اتحادی منہ دیکھتے رہ جائینگے۔ایک ،دو دن بعد وہ بھی چپ ہوجائینگےکیونکہ انکو ان کا حصہ دے دیا جائے گا۔مسئلہ تو صرف اپنے ’’حصے ‘‘ کا ہے ۔اگر کوئی اتحادی نہیںمانے گا تو اسے عمران خان سے ڈرایا جائے گا کہ وہ آکر سب کو مارے گا۔آجکل چل ایسے ہی رہا ہے،کوئی اتحادی ناراض ہونے لگتا ہے تو اسے کپتان سے ڈراتے ہیں ۔بڑے بھائی بھی یہی چاہتے ہیں نگران حکومت لمبے عرصے کیلئے چلے۔اتحادی حکومت جو کچھ ابھی پی ٹی آئی کیخلاف نہیں کرسکی وہ نگران حکومت کرے گی۔
عمران خان کو نااہل کرنا اور انہیں سزا دلوا کر جیل میںقید کرنا۔ اور پارٹی کے دیگر رہنمائوں کا عرصہ حیات تنگ کرکے انہیں پارٹی سے نکالنا۔جس جس عدالت میں عمران خان کا کیس ہے وہاں من پسند اور بدعنوان ججوں کو تعینات کیا جارہا ہے،عمران خا ن کو جب گرفتار کیا گیا تھا وہ سازش بھی سامنے آگئی ہے،کیسے منصوبہ بنایا گیا،کہاں بنا،کون کون شامل تھا۔سرینا ہوٹل کی تصویریں چند دنوں تک منظر عام پر آجائینگی۔
جب زرداری اور شہباز نے اتحاد کیا تھا اس وقت خاکسار نے لکھا تھا ’’ اب دیکھنا ہے،زرداری اور شہباز میں کون کس کو چھرا گھونپتا ہے ؟ ‘‘۔لگ تو رہا ہے شہباز چھرا گھونپنے کیلئے تیار ہیں،ان کا نام بھی زرداری ہے،پانسہ پلٹنا وہ بھی جانتے ہیں،دیکھا جائے تو زرداری کی عمران خان سے تو کوئی ’’دشمنی‘‘ نہیں،اصل ’’دشمنی ‘‘ تو شریفوں سے ہے،کیا وہ طویل عرصے کی قید بھول سکتے ہیں؟ جو بے نظیر کے ساتھ ن لیگ کرتی رہی کیا اسے بھلایا جاسکتا ہے ؟ میچ تو خوب پڑے گا۔
ایک اور بھی اطلاع ہے،حکومت ختم ہونے کے بعد شہباز اور زرداری سے بھی عمران خان جیسا سلوک کرنے کا منصوبہ ہے،توازن قائم کرنے کیلئے،اس منصوبے سے عوام میں تاثر پیدا کرنے کی کوشش ہوگی کہ سب کےساتھ ایک جیسا سلوک ہورہا،تاکہ نفرت کی جوآندھی چل رہی وہ ختم ہوسکے ۔رہے عمران خان ،وہ اپنے تمام پتے سینے سے لگائے ہوئے ہیں،بس روز عدالتوں کے چکر لگا رہے،ہر بال کو روک رہے،رنز نہیں لے رہے،مدثر نذر والی اننگزکھیل رہے ہیں۔ رہے عوام ! ایک زرداری سب پر بھاری،قدم بڑھائو نواز شریف کے نعرے لگانے والے،اگلے ماہ جب بجلی کے بل آئے تو’’ لگ پتا جائے گا‘‘۔
اس بار الیکشن مہم میں امیدواروں کو چھتر پڑنے کا بھی امکان ہے،لوگ غصے میں ہیں۔ایک ہی بات روز وزیراعظم دہرا رہے ،ملک کوڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا، جبکہ حقائق یہ ہیں 24کروڑ عوام کو ذبح کرکے ملک کو ڈیفالٹ سے بچالیا گیا۔بس چند روز باقی،ریسلنگ مقابلے شروع ہونے والے ہیں۔دیکھتے رہنا،بلڈ پریشر ہائی نہیں کرنا،انجوائے کرنا۔