ہر طرف تاریکی،بے سمت جستجو،دائروں کا سفر،نفسا نفسی کا عالم،جبر کا موسم،طاقت کا کھیل،جھوٹ اور فراڈ کا کاروبار،انسانوں کی منڈی،قوم کا سیاہ ہوتا مستقبل،کیا ہم2023 میںزندہ ہیں ؟صرف کتابوں میں پڑھا تھا پتھر کے زمانے کی باتیں،اب سب کچھ عملی طور پر دیکھ لیا۔دل کانپنے لگتا تھا جب حجاج بن یوسف،ہلاکو خان،چنگیز خان کے قصے سنتے تھے،کیا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟
طاقت سے نفرت جنم لیتی ہے،نفرت سے بات بغاوت تک پہنچ جاتی ہے،بچے والدین کو چھوڑ جاتے ہیں۔روزانہ40 سے 50ہزار پاسپورٹ بن رہے،لوگ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔جس سے حال پوچھو،ایک ہی جواب ملتا ہے،یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔مودی کی بات باربار کانوں سے ٹکراتی ہے۔’’ کیا پاکستان ،پاکستان لگا رکھا،ہمارا مقابلہ دنیا سے ہے،پاکستان ہمارا معیار نہیں،ایک ارب ڈالر کیلئے در،در بھیگ مانگتے پھر رہے ہیں‘‘ ۔اکیلی ٹاٹا کمپنی کا2022 میں ریونیو128ارب ڈالر تھا،پاکستان کاکل بیرونی قرضہ126ارب ڈالر ہے۔
سنگاپور کی آبادی صرف54لاکھ جو لاہور کی آبادی سے بھی نصف ہوگی،اس کی کل برآمدات626ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ہمارے پاس کیا ہے ؟ صرف ترانے۔۔۔ہم زندہ قوم ہیں۔جڑانوالہ میں جو افراد ہجوم کی قیادت کررہے تھے،ان کا تعلق کس مذہبی اور سیاسی جماعت سے تھا؟نام کیوں نہیں لیتے؟سیاسی پارٹیاں اور ادارے خاموش کیوں ؟کورکمانڈر ہائوس سے عبادتگاہیں زیادہ مقدس ہیں،وہاں وفد کھڑے ہوکر میڈیا سے بات کیوں نہیں کرتے ؟۔شہر یار آفریدی،عمرسرفراز چیمہ کی تصویریں دیکھیں،تین ماہ میں بوڑھے ہوگئے ہیں۔
کیا قصور ہے ان کا؟وہ تو کسی احتجاج میں شامل بھی نہیں تھے،آفریدی تو9مئی کو جیل میں تھے۔زبردستی قانون بن رہے،عدالتیں قائم ہورہیں،جج کا فیصلہ دو دن پہلے معلوم ہوجاتا ہے۔صدر مملکت سپریم کمانڈر ہوتا ہے،اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا۔برطانیہ سے اسے سپیشل طیارے پر لایا گیا،قوم کو ذبح کرکے واپس چلا گیا۔4سال غیر حاضری کی تنخواہیں بھی کروڑو ں میںوصول کرلیں،مقدمات بھی ختم کرالئے ،کیسا کمال کا قصائی ہے۔اطلاعات یہی ہیں انتخابات نہیں ہونگے۔صرف صدر علوی ہی رہ گئے ہیں،جو آخری وکٹ سنبھالے ہوئے ہیں،ان کے خلاف محاذ کھل گیا ہے،سب ہاشیہ بردار ،دستر خوانی قبیلہ سرگرم ہوگیا ہے۔
سنجرانی کو ان کی جگہ لانا چاہتے ہیں۔دیکھتے ہیں کتنے دن دانتوں کا ڈاکٹرپائوں پر کھڑا رہتا ہے ۔دلوں کو جلانا مقصود ہوتو وہ فہرست پڑھ لیں جن جن لوگوں کو حکومت نے ایوارڈ سے نوازا۔رات کو میرے دوست شعیب راجہ بتا رہے تھے مقام اعراف پر ایوب، یحییٰ،ضیا،پرویزکی لمبی ملاقات ہوئی ہے،بڑے خوش تھے،قہقہے لگتے رہے،خوب جام اچھالے گئے ،کہہ رہے تھے انکے جانشین نے ان کا نام روشن ،عزت میں اضافہ کردیا ہے،لوگ تو اب انہیں فرشتے سمجھ رہے ہیں۔’’بے شک تمہارا رب بھولنے والا نہیں ‘‘ خیرہ کن فراست کے امام شافعی فرمایا کرتے،قرآن کریم کی یہ آیت ظالم کیلئے ثیر اور مظلوم کیلئے سائبان ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب (عامل بنا کر) یمن بھیجا۔تو نبی مہربان ﷺنے انہیں ہدایت فرمائی!کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا،کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔الشعراء آیت نمبر227 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں۔قاضی شریح رحمہ اللہ کہتے ہیں ،’’ظالم انجام کا او رمظلوم امداد کامنتظر ہوتا ہے‘‘۔ایسے حالات میں کوئی سانحہ ہوتا ہے،بہت بڑا سانحہ،پھر سب خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں،سرپیٹتے ہیں لیکن ہم کوئی اس سے سبق نہیں سیکھتے۔
کتنے سانحات ہوئے،کچھ سیکھا؟ہم صرف مرنے والوں کو کندھا دیتے ہیں زندہ لوگوں کو نہیں۔24کروڑ آبادی میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو سب کو ٹھنڈا کرکے ایک جگہ پر بٹھا دے،اتنا بڑا انسانی بحران۔کیاہم انتظار کررہے ہیںکوئی بڑا سانحہ ہوجائے؟یہ کہاں کی عقل مندی ہےخون خرابے کے بعد مذاکرات کی میز پر بیٹھنا؟خواجہ نظام الدین کا قول ! کسی نے کانٹا رکھ دیا اور جواب میں تم نے بھی کانٹا رکھ دیا تو یہ دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی۔
امجد اسلام امجد!
اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے۔