
Shakil Ahmad
President
Pakistan Mission Intl
Immigration Advisor
Justice of Peace Australia
ShakilAhmadPkOz@gmail.com
جب تک امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے فلسطین نہیں بچ سکتا!
امریکہ 1945 سے اقوام متحدہ کے ذریعے اپنے سیاسی ایجنڈا چلا رہا ہے۔ وہ ڈپلومیسی کے ڈرامے سے دنیا کو بے وقوف بنا کر دنیا بھر میں اپنے غلام حکمرانوں اور میڈیا کے ذریعے عوام کو خاموش کرا تا ہے۔ امریکہ کی وجہ سے فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، اٹلی اور جرمنی بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کے ذمہ دار ہیں۔ اس سے پہلے وہ اسرائیل کی مالی، فوجی اور سفارتی مدد کرتے تھے۔ لیکن اب اپنے عوامی غیض و غضب سے بچنے اور اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے وہ منافقانہ طور پر اس فلسطین کو تسلیم کر رہے ہیں جو اب معصوم فلسطینیوں کا قبرستان ہے۔
اگر امریکا امن کے لیے مخلص ہوتا تو وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں چھٹی مرتبہ اسرائیلی جنگ بندی کو ویٹو نہ کرتا۔ اس سے پہلے بھی اسنے اسرائیل کے حق میں 50 بار ووٹ دیا ہے۔ اگر جنگی جرائم میں شامل مغربی ممالک اگر مخلص ہوتے تو ابتک اسرائیل سے اپنی مالی، فوجی اور سفارتی تعلقات ختم کر چکے ہوتے۔ سب جانتے ہیں کہ خطے میں ان کی فضائی، بحری اور زمینی مدد کے بغیر اسرائیل ایک دن میں ختم ہو سکتا ہے۔ صرف مغرب کی حمایت اور مسلمانوں کی بذدلی کی وجہ سے نیتن یاہو بے خوفی سے فلسطینیوں کا خاتمہ کر رہا ہے جیسے ہٹلر نے یہودیوں کا کیا تھا۔
جبکہ دنیا کو 75 سالوں سے اقوام متحدہ اور منافقانہ ڈپلومیسی کے ذریعے صرف بے وقوف بنایا جا رہا ہے تاکہ گریٹر اسرائیل کے لئیے وقت مل سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغرب 1948 کے بعد سے فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے کبھی سنجیدہ نہیں رہا بلکہ ان کی حمایت سے اسرائیل نے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ جاری رکھا اور فلسطینیوں کی نسل کشی کرتے ہوئے انہیں بھوک اور بم کی ذد میں مغربی کنارے اور سمندر پہ خیمہ بستیوں تک محدود کر دیا۔
ٹرمپ کو شرم آنی چاہیے، جو غلام مسلم رہنماؤں کو بے وقوف بنا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے پہ قبضہ کی اجازت نہیں دے گا۔ جبکہ اسرائیل کا پہلے ہی اس پر مکمل کنٹرول ہے اور وہ قتل و غارت کے ذریعہ وہاں بھی یہودی بستیاں بنا رہا ہے۔ اب اس منافق ٹرمپ سے پوچھو، کیا اسرائیل نے کبھی ایران اور حماس کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں کبھی اسکی سنی؟ بلکہ اسکی خفیہ اجازت سے ان دونوں پر حملہ کیا؟ ٹرمپ واقعی انسانی نہیں جو اب تک اسرائیل کی حفاظت کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ اسنے ICC کے ان ججوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کا حکم دیا جنہوں نے نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا اور اسکے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ مزید یہ کہ اقوام متحدہ کے قانون کے خلاف، اس نے فلسطین کے وزیر اعظم محمود عباس کو اقوام متحدہ سے خطاب کے لیے ویزا دینے سے انکار کیا۔ چنانچہ امریکہ کی تاریخ دیکھتے ہوئے ٹرمپ پر صرف غلام اور جاہل ہی بھروسہ کر سکتے ہیں۔ چونکہ اب وہ تیسری بار صدر نہیں بن سکتا، تو وہ اپنے REALESTAE، CRYPTO اور MINING کے خاندانی کاروبار کے لیےکے لئے جنگوں کی آڑ میں ڑیلز بنا نے میں مصروف ہے۔ ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے غزہ کے ساحل پر فلسطینیوں کی قبروں پہ Holiday Resorts بنانے کے لئے غزہ کو تیزی سے صاف کیا جا رہا ہے۔ اصل میں ٹرمپ امن اور سفارت کاری کی آڑ میں جنگوں کو ہوا دیتا ہے، اسلئیے اسے نوبل انعام جنگ کے لئے ملنا چاہئے نہ کے امن کے لئے۔ ہٹلر آج بھی ذندہ ہے، صرف شکلیں بدل گئی ہیں،
مسلم دنیا جسکے پاس بےشمار علمی و مالی طاقت یے لیکن اسپر امریکی غلام حاکم ہیں جو صرف اپنی ناجائز حکمرانی کی بقا کے لیے اپنے دنیاوی خدا ٹرمپ کے جوتوں میں بیٹھے ہیں۔ ان بزدلوں کو یاد رکھنا چاہیےکہ اگر آج وہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموش ہیں تو جب اسرائیل انکی قبروں پر گریٹر اسرائیل بنائے گا تب کوئی انکے لیے بھی کھڑا نہیں ہوگا۔ جب تک غلام حکمرانوں سے جان نہ چھڑائی جائے، مسلم دنیا اسی طرح امریکہ کی غلام رہے گی۔
مسلمان حکمران اس قدر خوفزدہ ہیں کہ ٹرمپ کے غیر ضروری درج ذیل مطالبات ماننے کے لیے بھی تیار ہیں۔
1: مستقل جنگ بندی کے بغیر 48 یرغمالیوں کی رہائی۔
2: ابراہیم اکارڈ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔
3: غزہ کی تعمیر نو کے اخراجات کو پورا کریں جبکہ فلسطینیوں کو سوڈان، شام اور مصر میں دھکیلا جائے گا۔
4: اسرائیل کے زیر اثر عبوری حکوت لیکن PLA اور حماس شامل نہیں۔
5: امریکی کمانڈ میں امن فورس جس میں اسرائیل کی رضامندی سے ممالک شامل ہوں۔
6: اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کے بغیر غزہ کی تعمیر نو۔
اب آپ تصور کر سکتے ہیں کہ 48 اسرائیلی یرغمالیوں کے لئے 70,000 فلسطینیوں کو قتل کیا اور 125,000 کو زخمی کیا۔ مزید 1500 امدادی کارکنوں اور 200 صحافیوں کو ہلاک کیا اور اربوں ڈالر کی تعمیرات کی تباہی اضافی ہے۔ نیتن یاہو ہٹلر سے بھی بدتر ہے کیونکہ وہ ان فلسطینیوں کو مار رہا ہے جنہوں نےیہودیوں کو خوراک اور پناہ اسوقت دی جب یورپ اور روس نے انکی نسل کشی اور وہ دنیا بھر میں ذلیل وخوار تھے۔ لعنت ہے ایسے نمک حراموں پر۔
امریکہ اپنی معیشت کو برقرار رکھنے کے لیے جنگوں کا سھارا لیتا ہے، جو خواہشات پر ہوتی ہیں نہ کہ حقائق پر۔ اسلئے اسے ویتنام اور افغانستان سے بھی ذلت کے ساتھ نکلنا پڑا۔ اگر امریکہ اور اسرائیل بین الاقوامی قوانین کا احترام نہیں کرتے اور دوسرے ممالک پر حملے اور قبضے کرتے ہیں تو پھر روس کو یوکرین پر اور چین کو تائیوان پر قبضہ کرنے کا حق ہے۔ بین الاقوامی امن صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب چین اور روس امریکہ کی فرونیت کا مقابلہ کریں اور کمزور ممالک کو تحفظ دیں۔
نوٹ: اے ون ٹی وی نیٹ ورک کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 1000 سے 1,500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ 03334049991 پر ویٹس ایپ کریں۔