
چکوال(اے ون نیوز)چکوال میں میڈیاسے گفتگو کرتےہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت کے پاس اصل مینڈیٹ ہی موجود نہیں، یہ جعلی مینڈیٹ کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں، جعلی مینڈیٹ کے باوجود بھی حکومت صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی محض سہارا بنی ہوئی ہے، یعنی یہ جعلی اکثریت نہیں بلکہ جعلی اقلیت کی حکومت ہے۔
جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو جعلی مینڈیٹ کی حامل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اصل سوال یہ ہے حکومت کس کی ہے اور اصل فیصلے کون کر رہا ہے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی گرفتار کیوں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب آئین کے خلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب آئین سے بغاوت ہوگا، جس کے بعد ان کا مینڈیٹ خود بخود ختم ہو جاتا ہے، اسی لیے ہم باہمی مشاورت سے ایک متفقہ مؤقف سامنے لانا چاہتے ہیں۔
مولانافضل الرحمان نے کہا کہ جہاں تک 28 ویں ترمیم اور نئے صوبوں کی بازگشت کا تعلق ہے، تو اصولی بات اور ہے اور عملی حقیقت کچھ اور ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ نے فاٹا کو صوبے میں ضم کیا، ہم نے دلائل کے ساتھ مخالفت کی اور اس کے نقصانات سے آگاہ بھی کیا لیکن اسٹیبلشمنٹ خود کو عقل کل سمجھتی رہی اور آج وہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ فیصلہ غلط تھا اور اب باقی صوبوں کو بھی تقسیم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لیے زمینی حالات سازگار ہیں؟ یا کل پھر ہم روئیں گے کہ ہم نے ملک کو نقصان پہنچایا، یہ لوگ بات تو کر لیتے ہیں، پھر طاقت کے زور پر فیصلے نافذ بھی کر دیتے ہیں، فاٹا کا انضمام بھی طاقت کے زور پر کیا گیا اور آج وہاں مسلح گروپس نے علاقے پر قبضہ جما لیا ہے اور ریاست کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔
مولانافضل الرحمان نے کہا کہ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ 75،78 برسوں میں نہ پاکستان کی افغان پالیسی درست رہی اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف پالیسی کوئی مثبت نتیجہ دے سکی ہے۔
امیر جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ فیصلے سیاست دانوں کو کرنے ہوتے ہیں، طاقت تو ان کے فیصلوں کے بعد استعمال ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن اور دیگر اداروں کی خرابیوں پر بھی اجتماعی رائے قائم ہونی چاہیے اور 22 تاریخ کو علما کی کانفرنس میں اس پر واضح مؤقف سامنے آ جائے گا۔
مولانافضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان سے ملاقاتوں کی اجازت نہ دینا بھی ایک جمہوری ملک میں افسوس ناک ہے، میں تو یہ بھی سوال اٹھاتا ہوں کہ وہ گرفتار کیوں ہیں؟ نہ میں سیاست دانوں کی گرفتاری کے حق میں ہوں اور نہ ملاقاتوں پر پابندی کے حق میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے اور اصل فیصلے کون کر رہا ہے؟ ہم سب انہی فیصلوں کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔
مولانافضل الرحمان نے کہا کہ آرمی چیف نئے اسٹیٹس کے ساتھ جو اپنے آنے والے مستقبل کا وہ آغاز کر رہے ہیں تو انہوں نے علما کے اجتماع سے خطاب کیا ہے تو اچھا گمان کیا جائے۔




