پتنگ بازی کا خونی کھیل ملک بھر میں با لعموم اور پنجاب میں بالخصوص دھڑلے سے جاری ہے۔
یہ کھیل جہاں ہماری ثقافت، معاشرتی استحکام اور اسلامی اخلاقیات کو بگاڑنے کا سبب بن رہا ہے، وہاں آئے دن کسی نہ کسی انسان کی زندگی کا چراغ بھی گل کرتا چلاجارہا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پتنگ کی دھاتی ڈور سے کٹ کر جاں بحق ہونے والے افراد کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو نہ پتنگ اڑاتے ہیں اور نہ ہی ان کا مقصد پتنگ لوٹنا ہوتا ہے۔
تین روز قبل فیصل آبادکے علاقے میں ایک قاتل ڈور نے ایک 22سالہ نوجوان آصف کی اس وقت جان لے لی جب وہ گھر سے افطاری کا سامان لینے موٹر سائیکل پر نکلا تھا۔ فیصل آبادکے علاقے ناولٹی پل کے قریب گلے پر ڈور پھرنے سے نوجوان کی ہلاکت کے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظرعام پر آگئی ہے۔ فوٹیج میں ڈور پھرنے کے بعد 22 سالہ آصف کو موٹر سائیکل سے گرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ جس کی موقع پر ہی موت واقع ہوجاتی ہے۔بتایا گیا ہے کہ 22 سالہ آصف کی عید سے چار روز بعد شادی تھی۔
پنجاب میں ڈور پھرنے سے ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے گزشتہ 2 ماہ کے دوران ڈور سے ہلاک ہو نیوالے افراد کی تعداد تین( 3) ہو گئی ہے جبکہ زخمیوں میں بھی 2درجن سے زائد افراد شامل ہیں وقوعہ کے روز اس ہلاکت کے علاوہ فیصل آباد میں ہی 5 افرادکے زخمی ہو نے کی اطلا عات بھی موصول ہو ئی ہیں افسوس ناک امر یہ ہے ڈور سے ہلاکتوں کا سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جا ری ہے جس ایس ایچ او کو وقوعہ کا زمہ دار قرار دیکر معطل کیا جا تا ہے جلد ہی اس کی بحالی اور کسی نہ کسی تھانے میں تعیناتی بھی ہو جاتی ہے یہ واقعات معمول بنتے جارہے ہیں۔
وقوعہ کی اطلاع پاکر اہل خانہ بھی ہسپتال پہنچ گئے اور وہاں کہرام مچ گیا متو فی کی لاش جیسے ہی گھر پہنچی تو وہاں قیامت صغری کا منظر تھا ہر آنکھ اشکبار اور چاروں اطراف سے زارو قطار رونے اور خواتین کے بین کر نے کی آوازوں نے فضاکو مزید سوگوار کر دیا بے گناہ شہری کی افسوس ناک ہلاکت پرو زیراعلیٰ پنجاب کو بھی نوٹس لینا پڑا، جنہوں نے جاں بحق ہونے والے شہری کے لواحقین سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت کیا ہے، سوشل میڈیا پر گزشتہ روز یہ خبر بھی وائرل ہو رہی تھی کہ صدمے سے آصف کی ماں کی بھی موت واقع ہو گئی ہے اس طرح ایک گھر میں دو اموات سے وہ گھر ہی اجڑ گیا ہے۔
وزیر اعلی پنجاب مریم نوازنے یقین دہانی کروائی ہے کہ ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ پابندی کے باوجود پتنگ بازی کے واقعات ناقابل برداشت ہیں، پتنگ بازی پر پابندی کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے گا۔۔اعداوشمار کے مطابق گزشتہ چندسالوں کے دوران 200 سے زائد افراد قاتل ڈور کا شکار ہوئے ہیں۔ 2004 میں 9 افراد بسنت کے دن گردن پر ڈور پھرنے سے جان کی بازی ہا ر گئے۔2005 کو 19 شہری خونی کھیل کی بھینٹ چڑھ گئے، 2007 میں 10 افراد جاں بحق جبکہ 700 سے زائد زخمی ہوئے، جس کے بعد 2009 میں اس تہوار پر مکمل پابندی کے احکامات جاری کیے گئے۔ پتنگ بازی لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں کا ایک ایسا مقبول روایتی کھیل رہا ہے جس نے باقاعدہ تہوار کی شکل اختیار کرلی تھی۔
ماضی میں ہر برس موسم بہار کی آمد پر پتنگ بازی کرکے بسنت منائی جاتی رہی لیکن پھر پتنگ بازی کے دوران ہونے والے حادثات میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوگیا تھا اور اوسطاً سالانہ ایک سو افراد تک کی ہلاکتیں رپورٹ ہونے لگیں جس کے بعد پتنگ بازی پر پابندی عائد کی گئی۔زیادہ تر ہلاکتیں گلے پر مانجھا لگی ڈور پھرنے،دھاتی تار والی پتنگ سے کرنٹ لگنے،بسنت پر ہونے والی ہوائی فائرنگ اور پتنگ بازی اور لوٹنے کے دوران چھت سے گرنے اور گاڑی کے نیچے آنے سے ہوتی رہی ہیں۔ پتنگ بازی پر پہلی بار پابندی 2005میں لگائی گئی اس کے بعد دو بار بسنت منانے کی محدود اجازت دی گئی لیکن دونوں بار نتیجہ بھاری جانی نقصان کی صورت میں نکلا تھا۔ پابندی کے باوجودمعصوم بچوں اور بے گناہ افراد کے گلے کاٹنے والی قاتل ڈور سے پتنگ بازی کا سلسلہ سرعام جاری ہے۔
قاتل کھیل پتنگ بازی پر پابندی کے باوجود پنجاب میں پتنگ بازی کا سلسلہ سرعام جاری ہے۔ پولیس نے پتنگ بازوں کو پکڑنے کی بجائے چپ سادھ لی اور پولیس منچلوں کو روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے بلکہ پولیس پتنگ بازوں اور پتنگ فروشوں کو پکڑ کر روکنے کی بجائے دیہاڑیاں لگانے میں مصروف رہتی ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور سید علی ناصر رضوی نے اس خونی کھیل کو روکنے کے لیے چند روز قبل اس حوالے سے ایک اعلی سطحی اجلاس میں جس میں شہر بھر کے تمام ایس ایچ اوز اور ایس ایس پی لاہور نے بھی شرکت کی انہیں وارننگ دی ہے کہ اگر لاہور میں کسی جگہ پتنگ بازی کا کوئی افسوس ناک واقعہ پیش آنا تو دور کی بات کسی بھی ایس ایچ او کے علاقے میں پتنگ بازی نظر آئی تو وہ ان کے خلاف ایسی کارروائی کریں گے کہ پھر وہ ساری عمر ایس ایچ او شپ کے لیے ترستے رہیں گے ان کی یہ وارننگ فی الحال تو کام کرگئی ہے اور بظاہر لاہور میں پتنگ بازوں کے حوالے سے جو کریک ڈاو¿ن جاری ہے وہ کافی حاصلہ افذا ہے۔
خبر ہے کہ ڈی آئی جی سی آئی اے عمران کشور نے اپنی فورس کے تمام سینئر اور سرکل افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی بھی لین دین کے معملات کی انکوائری کا حصہ نہیں بنیں گے،قماربازی ،ہنڈی کاکاروبار کرنے سمیت آرگنائزڈ کرائم پر وہ چھاپے نہیں ماریں گے اس کے باوجود اگر کو ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ خبر ہے کہ ایک روز قبل تھانہ باغبانپورہ کے ٹی ایس آئی یاسر نے روٹین کی گشتت کے دوران مسلم لیگ کے ایک ایم پی کی کالے شیشے والی گاڑی کو روک کر چیک کرنا چاہا جس پر ایم پی نے اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور معافی مانگنے پر مجبور کرتا رہا اس افسوس ناک واقعہ کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے افسران نے ماتحت کی فرض شناسی کو سراہنے کی بجائے سزا کے طور پر اس کا جوڈیشل ونگ میں تبادلہ کردیا ہے ایسی کارروائیوں سے ماتحت نہ صرف بددل ہوتے ہیں بلکہ فورس کا مورال بھی ڈاون ہوتا ہے۔