سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کرلی۔
سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے بانی پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف اپیل منظور کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی دس، دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی۔
سماعت کے آغاز پر عدالت عظمیٰ نے فرد جرم کیخلاف درخواست پر حامد خان کی دلائل کیلئے مہلت کی استدعا منظور کی جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) کے پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا جس پر قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں آپ کو کیا جلدی ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پرانی چارج شیٹ کے خلاف درخواست غیر موثر ہوچکی، نئی فرد جرم پر اعتراض ہے تو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں۔
اس موقع پر حامد خان نے استدعا کی کہ مناسب ہوگا آج ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے جبکہ سلمان صفدر نے کہا کہ 6 بجے تک ٹرائل چلتا ہے، ایسا نہ ہو آئندہ سماعت تک مکمل ہوجائے، عدالتی اوقات کار کے بعد بھی ٹرائل چل رہا ہوتا ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیس چلتے نہیں، آپ کا چل رہا تو آپ کو اعتراض ہے، فرد جرم والی درخواست غیر مؤثر ہونے پر نمٹا دیتے ہیں، جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ حامد خان درخواست میں ترمیم کر چکے، اسے نئی درخواست کے طور پر لیا جائے۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ ترمیم شدہ درخواست بھی ہائیکورٹ سے پہلے ہم کیسے سن سکتے ہیں؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لئے ہیں جس پر سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ اسپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں کہ ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو؟۔
سلمان صفدر نے کہا کہ ان کیمرا ٹرائل کیخلاف درخواست آج ہائی کورٹ میں بھی زیرسماعت ہے، دوسری درخواست فرد جرم کیخلاف ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائی کورٹ ختم کر چکی ہے، نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
حامد خان نے کہا کہ ٹرائل اب بھی اسی چارج شیٹ پر ہو رہا ہے جو پہلے تھی۔