بلاگتازہ ترین

میرا کراچی….تحریر: محمد فہدحارث

اس دفعہ بقر عید پر تین ہفتے کے لیے کراچی آنا ہوا۔ اور اب متحدہ عرب امارات واپسی کے لیے جہاز میں سوار ہوں۔

کراچی میں وقت اچھا گزر گیا۔ ان تین ہفتوں میں کراچی سے متعلق کچھ مشاہدات ہوئے سوچا کہ یاد داشت کے لیے قلمبند کردوں۔

حسب توقع سارا شہر کھدا پڑا ہوا ہے اور جابجا کوڑا اڑتا نظر آتا ہے تاہم اس دفعہ جس چیز نے خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا وہ قربانی کے فورا بعد کے ایم سی کی طرف سے آلائشوں کی صفائی تھی۔ مجھے دوسرے شہروں یا علاقوں کا تو نہیں پتہ لیکن میں کراچی میں جس جس علاقے میں گیا وہاں کہیں بھی مجھے قربانی کے بعد گندگی، خون یا آلائشیں نظر نہیں آئیں۔ اس دفعہ سندھ حکومت نے نہایت مستعدی سے آلائشوں کو اٹھا کر ٹھکانے لگانے کا کام کیا ہے جبکہ پچھلے برس یہ حال تھا کہ ملیر رفاہ عام کے اسٹاپ سے لیکر وائرلیس گیٹ کے پھاٹک تک سڑک کے کنارے نہ صرف جابجا آلائشیں پڑی تعفن پھیلارہی تھیں بلکہ کوئی صاحب وہیں سڑک کنارے اپنی مردہ سالم گائے بھی سڑ کر پھولنے اور تعفن پھیلانے کو چھوڑ آئے تھے۔ تاہم اس دفعہ الحمدللہ جہاں جہاں میں گیا کسی ایک جگہ بھی قربانی کے بعد کوئی آلائش یا اوجھڑی وغیرہ راستے پر پڑی دیکھنے کو نہ ملی۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔

اس دفعہ شدت سے یہ احساس ہوا کہ لوگ شاید کراچی میں سوتے ہی نہیں۔ ایک رات قریبی خاندان والوں کے ساتھ پکنک کی غرض سے نادرن بائی پاس کے قریب فارم ہاوس رات گزارنے گئے البتہ میں طبیعت کے سبب رات ساڑھے بجے تک ماموں کی فیملی کے ساتھ واپس گھر ہولیا۔ نادرن بائی پاس سے لیکر گلستان جوہر اور ڈالمیا تک رات کے دیڑھ دو بجے آس پاس سڑکوں پر ایسے ٹریفک دیکھنے کو ملا جیسے آدھی رات نہیں بلکہ نو، دس بج رہے ہوں۔ کئی دفعہ گاڑیاں ڈرائیو کرتے ہوئے لوگوں پر نظر پڑی تو ان کے چہرے کی بشاشت سے یہی لگتا کہ جیسے ابھی سوکر اٹھے نہایت چاق و چوبند ہوں۔

متحدہ عرب امارات میں ہر وقت یہ فکر کھائے جاتی تھی کہ ملک میں مہنگائی ہوشربا طریقے سے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کی قوت خرید کم ہوتی جارہی ہے لیکن اللہ گواہ ہے کہ جب جب گھر سے باھر نکلا بازاروں میں لوگوں کا اژدھام ہی دیکھنے کو ملا۔ کونسی دکان ہوگی جہاں دکاندار مکھی مارتا نظر آجائے۔ بالخصوص کھانے پینے کی دکانوں پر تو اس قدر رش کہ پوچھو متی۔ ایسا لگتا کہ شاید لنگر تقسیم ہورہا ہے۔

دبئی میں کے ایف سی کا ذائقہ مجھے اتنا پسند نہیں تو سوچا کہ کراچی جاکر کے ایف سی کا مائٹی زنگر کھاونگا۔ اتفاق سے ہر روز ہی کسی نہ کسی رشتے دار کے ہاں دعوت ہوتی تو ایسا ممکن نہ ہوپاتا کہ رات کے کھانے میں کے ایف سی جاکر یا آرڈر کرکے منگواکر کھایا جائے۔ تین دفعہ ایسا ہوا ہم رات کو دیڑھ دو بجے کے ایف سی لینے نکلے لیکن کے ایف سی کے کاونٹر پر رات کے اس پہر تین تین لمبی متوازی قطاریں جو آوٹ لیٹ سے باھر تک ہوتی تھیں، دیکھ کر ہمت ہی ٹوٹ جاتی۔ ایک دو دفعہ آنلائن آرڈ کرنے کا بھی سوچا لیکن مائٹی زنگر ہر دفعہ ختم ہوچکا ہوتا۔ یہ سب دیکھ کر ذہن میں بارہا یہی خیال آیا کہ ماضی میں تھوڑی عقلمندی دکھا کر کے ایف سی یا میکڈونلڈز کی کوئی فرنچائز ہی خرید لیتے تو آج ہم بھی کڑوڑوں میں کھیل رہے ہوتے۔

ایک رات ویک ڈے میں ایک دعوت سے واپسی پر کچھ دیر ہوگئی۔ رات کے پونے ایک بجے رب میڈیکل گلشن اقبال کے سامنے سے گزرے تو ایک نیا ریسٹورنٹ نظر آیا جو شاید پچھلے سال تک وہاں نہ تھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ پورا ریسٹورنٹ لوگوں سے اندر باھر کھچا کھچ بھرا پڑا ہے اور وہ بھی ویک ڈے میں رات کے پونے ایک بجے جبکہ اگلے روز آفس ہوتا ہے۔ کیا کراچی میں لوگ اب صرف کھاتے ہی رہتے ہیں اور راتوں میں سونا چھوڑ دیا ہے؟

ہفتے والے روز بھائی وغیرہ رات بوائز اونلی پکنک پر گئے تو گھر کی خواتین اور بچیوں نے کہا کہ ہمیں باھر کھانے پر لے چلیے۔ میں نے ہامی بھرلی کہ ایک گاڑی بھابھی چلالیں گی اور ایک میں۔ بس سمجھئے کہ میری مت ماری گئی تھی تو ہاں کر بیٹھا۔ سڑکوں پر اتنا رش کے میرا بی پی ہائی ہوئے جائے۔ پھر بہادر آباد میں جہاں کھانے جانا تھا، وہاں ایک ساتھ کئی فیملی ریسٹورنٹس تھے پس سڑک پر بڑی بڑی گاڑیوں کی لمبی قطاریں۔ بڑی مشکل سے ایک ریسٹورنٹ پہنچے تو وہاں دیڑھ گھنٹہ انتظار فرمانے کو کہا گیا۔ دوسرے ریسٹورنٹ گئے تو وہاں بھی یہی حال، بڑی مشکل سے تیسرے ریسٹورنٹ میں آدھے گھنٹے کی ویٹنگ کے بعد جگہ ملی۔ میں مسلسل بھانجیوں اور بچیوں کو کہے جاوں کہ یہ کیا نامعقولیت ہے بھلا؟ انسان باھر کھانا کھانے ریلیکس ہونے کے لیے جاتا ہے یا پھر ٹریفک میں پھنسنے کی عقوبت کے ساتھ ساتھ ریسٹورنٹ کے باھر انتظار کی اذیت اٹھانے واسطے۔ عجیب نا معقول ہو تم لوگ اور انتہائی غیر معقول حرکت کی ہے تم لوگوں نے آج۔ لیکن انکا کہنا یہی تھا کہ بھائی جان! یہی تو انجوائمنٹ ہے اور کراچی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

سڑکوں پر بڑے بڑے برانڈز کی بڑی بڑی گاڑیاں دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ ملک کسی معاشی بحران کا شکار ہے۔ سڑکوں پر ہر وقت ٹریفک کا اژدھام رہتا ہے اور لوگ بڑی بڑی گاڑیاں دوڑاتے پھرتے ہیں۔ شاہ فیصل کالونی والی چورنگی جہاں تمام کھانے کی دکانیں ہیں، مغرب کے بعد سے صبح ساڑھے چھ بجے تک کھلی رہتی ہے جبکہ گلستان جوھر میں جوھر چورنگی سے لیکر جوپر موڑ تک کھانے پینے کی دکانیں فجر سے 10، 15 منٹ پہلے بند پوتی ہیں، تاہم پٹھانوں کے ہوٹل غالبا 24 گھنٹے اور حلوہ پوری کی دکانیں فجر کی اذان سے قبل ہی کھل جاتی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ کراچی کے لوگوں نے راتوں کو سونا چھوڑ دیا ہے البتہ دن میں خوب جم کر سوتے ہیں۔ ایک روز صبح آٹھ بجے باھر نکلنا ہوا تو ذہن میں آیا کہ سڑک پر رش ملے گا لیکن یقین جانئے ویک ڈے پر اکا دکا گاڑیاں ہی نظر آرہی تھیں اور اصل رش ساڑھے نو بجے کے بعد شروع ہوا۔ بڑے کاروباری بازار تو کھلتے ہی اب ماشاءاللہ بارہ بجے کے بعد ہیں۔

ایک روز ایک عزیز کے گھر ہاوس وارمنگ کے سلسلے میں کھانے کی دعوت پر ڈی ایچ اے فیز آٹھ جانا تھا، راستے میں خیال آیا شاہراہ فیصل سے گزرتے ہوئےآرمرڈ فورسز کے ایک کے بعد ایک کئی علاقے دیکھنے کو ملے، پہلے کبھی غور کرنے کا اتفاق نہ ہوا لیکن پچھلے دنوں ملک جس سیاسی کشمکش سے گزرا اس نے توجہ منعطف کروائی کہ مبالغہ نہ لگے تو شاید 50 فیصدی یا اس سے کچھ زیادہ مرکزی کراچی کا رہائشی علاقہ تو پاک افواج کی ملکیت میں ہے۔ ڈی ایچ اے کے تمام فیزز، فیلکن سوسائٹیز، پی اے ایف بیس، ڈالمیا کی پوری پٹی جہاں نیوی کالونیز بنی ہوئی ہیں، کارساز، ملیر کینٹ کا وسیع علاقہ، راشد منہاس روڈ پر واقع عسکری 4 اور نجانے کون کون سے علاقے۔۔۔ گویا تمام پرائم لوکیشنز پاک افواج کے پاس ہی ہیں اور یہی وہ علاقے جہاں سڑکیں اور انفرا اسٹرکچر معیاری اور ضروریار زندگی کسی حد تک دستیاب ہیں۔ باقی علاقے تو یتیم و یسیر نظر ہوتے ہیں۔

اصل شے جس پر مجھے شدید حیرت ہوتی ہے وہ نہایت ڈھٹائی اور کانفیڈنس سے غلط کام کرنا ہے۔ لوگ پورے اعتماد کے ساتھ رانگ وے گاڑی چلاتے ہیں اور اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ صحیح راستے سے آنے والوں کو نہایت خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بار بار ہارن دیتے ہیں کہ "ابے سالے سامنے سے ہٹ، تیرے باپ کی روڈ تھوڑی ہے۔”

ایک مزے کا قصہ سنیے۔ ایک روز میں گلشن سے جوھر موڑ کی طرف آرہا تھا، شام کا وقت تھا اور ٹریفک کافی جام تھا۔ تاہم ہر تھوڑی دیر بعد ٹریفک چلنا شروع ہوجاتا۔ گاڑی سے سر نکال کر دیکھا تو دور ایک ٹرئفک کانسٹیبل نظر آیا جو ٹریفک کلئیر کروارہا تھا۔ بڑی خوشی ہوئی کہ ٹریفک پولیس اپنا کام کرکے ٹریفک کلئیر کروارہی ہے۔ لیکن جب قریب پہنچا تو حیرت کا اس قدر شدید جھٹکا لگا کہ کیا ہی بجلی کی ننگی تار کا جھٹکا ہوتا ہوگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ موصوف ٹریفک کانسٹئبل پہلے صحیح سمت سے آنے والی گاڑیوں کو راستہ دلواتے ہیں اور پھر تھوڑی دیر بعد انکو روک کر غلط سمت یعنی رانگ وے سے آتی گاڑیوں کو راستہ دلوارہے ہیں۔ گویا کانسٹیبل موصوف کے نزدیک غلط سمت سے آتی گاڑیاں کچھ غلط کر ہی نہیں رہیں جبکہ اصل ٹریفک جام ہی ان کی وجہ سے ہورہا تھا۔ چہ جائیکہ موصوف ان گاڑیوں کا چالان کرکے انکو روک کر ٹریفک بحال کرواتے، وہ باقاعدہ انکو facilitate کررہے ہیں۔ فیا للعجب۔

غالبا عید کے دو دن قبل امی، بیگم اور خوشدامن صاحبہ کو لیکر عزیز آباد جارہا تھا کہ سرسید یونیورسٹی کے سامنے ٹریفک پولیس گاڑیوں کو روک رہی تھی، پس ہمیں بھی روکا۔ میں سمجھا کہ کاغذات پوچھے گی لیکن موصوف کانسٹیبل، جو کسی قدر خوش شکل چہرے پر مسکراہٹ سجائے جوان تھا، نے سیٹ بیلٹ نہ لگانے پر تنبیہ کی اور بتایا کہ 1040 روپے کا جرمانہ ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آپ جرمانہ کردیجئے، موصوف پوری ڈھٹائی سے دانت نکالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور کہاں جرمانے کی مصیبت میں پڑتے ہیں کہ کل دوبارہ آکر جرمانہ بھر کر اپنے کاغذات لینے کی مشقت اٹھائیں۔ ایسا کیجئے کہ بقر عید آرہی ہے، عیدی دیکر گلو خلاصی لیجئے۔

پورا شہر کراچی ایک ساتھ اسی طرح کھدا پڑا ہے جیسے سن 2007ء میں مصطفی کمال کے زمانے میں کھدا پڑا تھا۔ تاہم فی الحال ترقیاتی کام ہوتا نظر نہیں آرہا البتہ آج ایک بلڈوزر اسی کھدائی میں کچھ کام کرتے نظر تو آیا تھا۔

امید ہے کہ اگلے سال کراچی کا چکر لگے تو تب تک تمام ترقیاتی کام مکمل ہوکر شہر کی صورت نکل آئے۔

شہر میں جابجا سیاسی بل بورڈ اور ہورڈنگز دیکھنے کو ملتے ہیں جو غالبا بلدیاتی الیکشن میں لگائے گئے تھے اور اب جگہ جگہ سے پھٹ کر عجیب فضائی گند کا سا منظر پیش کررہے ہیں لیکن مجال ہے کہ جماعت اسلامی سے لیکر پیپلز پارٹی و پی ٹی آئی تک کسی کو ہوش بھی ہو کہ الیکشن کے دنوں میں جو اشتہارات اور ہورڈبگز آویزاں کیے تھے انکو اتارنے کی مشقت اٹھائی جائے تاکہ شہر کی بدصورتی میں کچھ کمی واقع ہو۔ لوگ کجا سیایس جماعتوں تک میں مدنی شعور ندارد ہے۔

دوسرے شہروں کا پتہ نہیں لیکن کراچی میں جس کو دیکھو وہ بس ملک سے باھر جانے کی بات کرتا نظر آتا ہے۔ گویا کراچی کی نوجوان و جوان آبادی اس وقت "پاکستان زندہ باد” کے بجائے "پاکستان سے زندہ بھاگ” کی متمنی نظر آتی ہے۔

ایک اور عجیب رویہ دیکھنے کو ملا کہ جس کا جہاں دل چاہتا ہے، پورے اعتماد کے ساتھ گاڑی روک کر کھڑا ہوجاتا ہے یا پارک کرکے کچھ خریدنے دکان پر چلا جاتا ہے، پھر چاہے پچھے ٹرئفک جام ہوتا رہے، سانوں کی۔۔۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اس رکی گاڑی کے سبب پیچھے ٹرئفک جام کا شکار ہوتے حضرات ہارن پر ہارن بجانے کی زحمت کرکے اپنی گاڑیاں یہاں وہاں سے سرکا کر نکل تو جائینگے لیکن کوئی اتنی زحمت نہ کرے گا کہ اتر کر اس رکی ہوئی گاڑی والے صاحب کو تنبیہ کرسکے یا انہیں سمجھا سکے کہ سر جی آپکی وجہ سے ٹریفک جام ہورہا ہے، گاڑی ہٹائیں یا تھوڑا سائیڈ پر کرلیں۔

ایک روز شام کے وقت یونائیٹڈ بیکری سے کچھ سامان لینے کی غرض سے سروس لین میں گاڑی ڈالی تو دیکھا کہ سروس لین جام ہے اور گاڑیاں پھنسی پھنسی چل رہی ہیں۔ خیر ہم بھی اسی سروس لین میں آگے آہستہ آہستہ سرکتے گئے، تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کالی ویگو تقریبا تقرببا بیچ سروس روڈ پر کھڑی ہے جس کے سبب گاڑیوں کو گزرنے میں مشکل ہورہی ہے اور بچتے بچاتے گزرنے کے سبب ٹریفک جام ہورہا ہے۔ ہم نے دل میں سوچا عجیب نامعقول شخص ہے جو یہاں بیچ سروس روڈ پر یوں گاڑی پارک کرکے چلا گیا۔

اسی سوچ میں غلطاں اس کالی ویگو کے برابر سے گزرے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ویگو والے صاحب بے غیرتی، ڈھٹائی اور بے حسی کے تمام عالمی ریکارڈ توڑٹے ہوئے انتہائی بے نیازی کے ساتھ موبایل فون میں سر دئیے اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہیں۔ پیچھے آنے والی گاڑیوں کے رکنے اور کار میں بیٹھیں بیگم اور بھابھی کا خیال نہ ہوتا تو گاڑی روک کر ان صاحب کی کھڑکی کھٹکھٹا کر ہوچھتا ضرور کہ میاں بھنگ پیے بیٹھے ہو یا پھر بے غیرتی کا کوئی عالمی مقابلہ جیتنے کا ارادہ ہے۔

خیر کہاں تک قصے سنائیں جائیں۔ فقط یہی عرض ہے کہ ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ بھی کراچی آیا تو اپنے لوگوں کی استمراری تنزلی دیکھ کر شدید دکھ ہوا۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ ہمارے لوگ نہ صرف معاشی بلکہ اخلاقی و مدنی انحطاط کا شکار بھی ہوتے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بحیثیت مجموعی معاشرے میں سوک سینس Civic sense مفقود ہوتا جارہا ہے۔ ہر شخص غلط کام انتہائی ڈھٹائی سے اپنا حق سمجھ کر کرتا ہے۔ معاشرتی و سماجی طور پر احساس ہی نہیں ہوتا کہ لوگ کسی قانون کے پابند ہیں۔

نوٹ ،اے ون ٹی وی اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں03334049991پر ویٹس اپ کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button