لاہور(اے ون نیوز)سپریم کورٹ کے مسٹرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاہے کہ اگر ججز پریشر برادشت نہیں کرسکتے تو پھر انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے ۔
ججز یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان پر پریشر آتا ہے ، اگر کوئی کہے کہ اس پر پریشر ہے تو وہ اپنے حلف پر عمل پیرا نہیں،فوج اور عدلیہ پربطور ادارہ نہیں بلکہ افراد پر تنقید کریں ،کسی فوجی کے عمل کی مذمت کریں مگر پوری فوج کو نہیں ،آئین میں اختیارات کی تقسیم کردی گئی ہے ،آرمی کوئی ادارہ نہیں بلکہ انتظامیہ کا ایک حصہ ہے ، انتظامیہ ، عدلیہ اور مقننہ ادارے ہیں ،ایف اے ٹی ایف کی طرح لسٹ بنائی جائے تو میں ججوں اور جرنیلوںکو بھی ان کے کردار کے حوالے سے بلیک ،گرے اور وائٹ لسٹ میں ڈالوں گا،اس موقع پرانہوںنے متعلقہ ججوں اورجرنیلوں کی نشاندہی کی ۔
ان خیالات کا اظہار مسٹرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عاصمہ جہانگیر (مرحوم ) کانفرنس میں جنوبی ایشیا میں آئین سازی بحران کے موضوع پرمنعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا،تقریب سے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ اور اوروفاقی وزیراحسن اقبال نے بھی خطاب کیا،مسٹرجسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے جمہوری حکومتوں اور منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کے حوالے سے کہاکہ ایک وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکالا گیا اور کہا گیا کہ آپ تنخواہ لے سکتے تھے مگر نہیں لی،آپ نے تنخواہ ظاہر نہیں کی اس لیے آپ اچھے مسلمان نہیں۔
انہوں نے کہا میں فیصلے پر تبصرہ نہیں کر رہا امر واقعہ کے طور پر فیصلہ بتا رہا ہوں،میں اس کے فیصلے پر اتنی بات نہیں کروں گالیکن یہ سوالات کے جوابات پر سزا بنتی تھی دیکھنا یہ ہے،ہمیں ریاست پوری زندگی تنخواہیں ادا کرتی ہے ،عوام کو چاہیے ہمارا انفرادی احتساب کریں ، بھٹو کا ٹرائل ملٹری ٹرائل نہیں بلکہ سویلین ٹرائل تھا، مسٹرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے باہر نکلا وہ ایک خوش آئین بات ہے ،جس نے بلیک ،گرے اور سفید لسٹ بنائی وہ کیا چاہتا تھا،میں بلیک لسٹ بناﺅںتومیں جنرل پرویز مشرف،جنرل ضیاءاور جنرل پرویز مشرف کو لکھو ںگا،فیٹف کی طرح لسٹ بنائی جائے تو میں اپنے ادارے کے ججز کو بھی اس طرح لسٹ میں ڈالوں گا ،میں جسٹس منیر ، جسٹس انوارالحق ، جسٹس ارشاد حسن کو بلیک لسٹ میں ڈال دیتا جبکہ جسٹس کانسٹنٹائن اور کارنیلئس،جسٹس ویلانی ، جسٹس بچل اور جسٹس محمد وائٹ لسٹ میں ڈالتاتاہم گرے لسٹ میں بہت سے ججز کے نام ہیں جن کا میں ذکر نہیں کروں گا،اسی طرح فوج میں جنرل ایوب جنرل ضیا اور جنرل مشرف کو بلیک لسٹ میں اورجنرل آصف نواز کو وائٹ لسٹ میں ڈالوں گا ۔
جنرل ایوب پہلافوجی تھا جس نے پلاٹ مانگا،میں دوسرے اداروں کی طرف انگلی نہیں اٹھاو¿ں گا ، کیونکہ ایک انگلی دوسرے کی طرف اور باقی انگلیاں اپنی طرف ہوتی ہیں،مسٹرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاقانون اور اداروں کا کردار دونوں ایک اہم پاور کے گرد گھومتے ہیں ،وہ پاور فیصلوں پر عملدرآمد کرا کر ہوتا ہے،1956 ءکا قانون جو بنا وہ پاکستان کے بنیادی ضرورتوں کیلئے ہی تھا،1973 ءکا آئین ایک مثالی آئین ہے ،1973 ءکے آئین میں ذولفقار علی بھٹو کا بہت اہم کردار ہے،بھٹو کا ٹرائل ملٹری ٹرائل نہیں سویلین ٹرائل تھا، جو فوجداری وکلاءہیں وہ بھٹو کی پھانسی کو اچھی طرح جانتے ہیں،ایک چیف جسٹس کا ٹی وی پر انٹرویو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسوآگئے تھے ، اس چیف جسٹس نے کہا تھا بھٹو کیس کا فیصلہ پریشر کی وجہ سے کیا گیا،آپ پریشر میں آکر ملک بیچ دیتے ہیں تو تاریخ آپ کو یاد رکھے گی،آرمی کوئی ادارہ نہیں بلکہ انتظامیہ کا ایک حصہ ہے ، عدلیہ اور مقننہ ادارے ہیں ،جمہوریت پر پہلا حملہ ایک بیوروکریٹ غلام محمد نے کیا ۔
سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ کالعدم قرار دیا،بعد میں اس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر نے فیصلہ کالعدم قرار دیا ،اس کے بعد سکندر مرزا ار جنرل ایوب نے جمہوریت پر حملہ کیا ،جسٹس منیر نے اس حملے کو بھی جائز قرار دیا ،قائداعظم ؒکی قیادت میں مسلمانوں نے اپنا ملک حاصل کیا ،مشرقی پاکستان ہم سے دلبرداشتہ ہو کر الگ ہو گیا ،مسٹرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ بھٹو کی قیادت میں متفقہ آئین منظور کیا گیا ،اس کے بعد آئین پر تیسرا حملہ ضیا الحق نے کیا ،آئین پر اس کے بعد حملہ پرویز مشرف نے کیا جس کی عدلیہ نے تائید کی ،کسی جج کے عمل کی وجہ سے اس کی مذمت کریں پوری سپریم کورٹ کو نہیں ،کسی فوجی کے عمل کی مذمت کریں مگر پوری فوج کو نہیں ،اداروں پر تنقید نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اداروں کے بغیر ملک نہیں چل سکتا ،پاکستان کو عدلیہ ، انتظامیہ اور فوج کی ضرورت ہے،ہم سب آئین پر عمل کے پابند ہیں ، ہمیں ریاست پوری زندگی تنخواہیں ادا کرتی ہے ،عوام کو چاہیے ہمارا انفرادی احتساب کریں ۔
اداروں پر الزام لگانا کسی صورت درست نہیں،پاکستان کو جمہوریت کی ضرورت ہے ،ہمیں انفرادی طور پر جواب دہ ہونا چاہیے،میں سب کا شکر گزار ہوں جنھوں نے اس عظیم خاتون کی کانفرنس میں بلایا ۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے بیرونی وابستگی اور حوس اور عسکری قوت کا اپنے دائرہ اختیار سے باہر آ کر قانونی قدغن کا باعث بنی،آج ہم قانونی طور پر پھر کرائسز سے گزر رہے ہیں،ہم انتشار کی صورتحال سے گزر رہے ہیں،ہم نے اپنی نوجوان نسل کو مستحکم آئین اور پاکستان دینا ہے۔
عاصمہ جہانگیر کے راستے کے اوپر چلتے ہوئے ہم نے قانون کی بالادستی کی بات کرنی ہے،کیا ہم نہیں چاہتے کے قانون کی عمل داری ہو،قانون اور آئین پر چل کر ہی ہم پاکستان کی خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیںلیکن یہاں قانون کو پامال کرکے ابہام اور افراتفری کی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے،ہم نے اپنی نوجوان نسل کو صرف جلسوں جلوس کا درس نہیں دینا،نوجوان نسل کو ہم نے قانون کی بالادستی کا درس دینا ہے،بار ہمیشہ اصولوں کی بنیاد پر کھڑی ہو گی،عاصمہ جہانگیر مزاحمت کی علامت تھیں ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا جتنی بڑی یہ کانفرنس ہو چکی ہے اب یہ کسی سٹیڈیم میں ہی ہونی چاہیے،میں اتنی کامیاب کانفرنس کرانے پر عاصمہ جہانگیر کی بیٹی منیزے کو مبارک باد پیش کرتا ہوں،موجودہ پاکستان کی حکومت بنیادی انسانی حقوق پر بہت زیادہ یقین رکھتی ہے۔