اسلام آباد(اے ون نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیریان وائٹ کیس کو بانی پی ٹی آئی کی زندگی میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ درخواست گزاریہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ ٹیریان وائٹ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی حقیقی اولاد ہے یا ان کے زیر کفالت رہی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل تین رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ دیا کہ اس کیس کا فیصلہ پہلے ہی محفوظ ہو چکا تھا اور چیف جسٹس کے بینچ سے الگ ہونے کے باوجود دو ججز کا اکثریتی فیصلہ موجود تھا اس لیے اس پر مزید سماعت کی گنجائش نہیں۔
عدالت نے سابقہ بینچ کے دو ججز جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر کے اکثریتی فیصلے پر انحصار کرتے ہوئے 54 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ درخواست ناقابل سماعت قرار دینے کی وجوہات میں لکھا کہ درخواست گزار یہ ثابت نہیں کر سکا کہ بانی پی ٹی آئی نے کبھی ٹیریان کی نگہداشت اور پرورش کی ذمہ داری نبھانے کا اقرار کیا ہو۔
کو وارنٹو کی رٹ کے قابل سماعت ہونے کے لیے ایسے غیر متنازعہ حقائق کو عدالتی ریکارڈ پر لانا ضروری تھا جس سے مزید وضاحت، تفتیش یا تحقیقات کی ضرورت نہ پڑے۔ پٹیشنرنے امریکا کی لاس اینجلس عدالت سے13 اگست1997 کویکطرفہ ڈگری ہونے والے مقدمے کا حوالہ دیا۔ وہی فریق عدالت آسکتا ہے جوغیرملکی عدالت کی ڈگری کوپاکستان میں قابل عمل کروانا چاہتا ہو۔ صرف ٹیریان جیڈخان وائٹ ہی قانونی حق وراثت یا ولدیت کیلیےغیرملکی عدالت کی ڈگری قابل عمل بنانےکا حق محفوظ رکھتی ہے، دیگر کوئی اورشخص قانونی طورپرایسا نہیں کرسکتا، درخواست گزارپاکستانی شہری اورامریکی عدالت کے فیصلے میں خود فریق نہیں ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کو چھپانے اور کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر بطور رکن قومی اسمبلی نااہل قرار دینے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دینے کے تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواست میں بانی پی ٹی آئی پر زنا سمیت غیرقانونی وناجائز رشتوں کے الزامات لگائے گئے۔
پٹیشنراس بات کا عینی شاہد ہے نہ ہی وہ اس کی تصدیق کسی تسلیم شدہ عدالتی فیصلے سے ثابت کرسکا۔ پٹیشنرنے بانی پی ٹی آئی کی ذاتی زندگی وکردارپرالزامات لگاکرٹیریان جیڈ خان کی زندگی پربھی سوالیہ نشان اٹھائے۔ اس سے عورت کی آئندہ زندگی پرگہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ تمام الزامات قرآن وسنت کے منافی،غیرتسلیم شدہ ہیں۔ عدالت آئین کے آرٹیکل199کے تحت متنازعہ امرپرکسی بھی قسم کے استقرارحق کا فیصلہ دینے کی مجازنہیں۔