امریکا کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی مسلسل خسارے میں جارہی تھی،کمپنی کے مالکان نے خسارے کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے ایک کنسلٹنٹ بھرتی کیا،کنسلٹنٹ نے دوماہ کے بعد کمپنی کے زوال کی بڑی دلچسپ وجہ بیان کی.
اس نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ کے دوران ڈائریکٹرز سے پوچھا ! فرض کریں آپ میں سے کوئی صاحب کچن میںکام کررہے ہیں،ایک ڈش تیار کی جارہی ہے،یہ ڈش جب تیاری کے قریب پہنچ جاتی ہے تو ایک صاحب کچن میں داخل ہوتے ہیں،وہ برتن کا ڈھکن اٹھاتے ہیں،کھانا سونگھتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں مرچ کی مقدار کم لگ رہی ہے،اس کے بعد بعد وہ اس میں ایک چمچ مرچ ڈال دیتے ہیں،اس کے بعد ایک دوسرا شخص کچن میں داخل ہوتا ہے،پوچھتا ہے کیا تیار کررہے ہو؟ پتیلی کا ڈھکن اٹھاتا ہے اور دیکھتے ہیں کہتے ہیں اس میں نمک زیادہ ہوتو ڈش زیادہ مزیدار بنتی ہے، اور خود ہی اس میں نمک کا ایک چمچ ڈال دیتے ہیں ۔اس کے بعد ایک تیسرا شخص کچن میں داخل ہوتا ہے،آتے ہی ڈھکن اٹھاتا ہے،سخت لہجے میں کہتا ہے آپ نے اس میں آئل کم ڈالا ہے،ایسے میں ڈش مزیدار کیسے بنے گی،اور غصے سے آئل کا ڈبا اٹھاتا ہے اور ڈش میں دو،تین چمچ ڈال دیتا ہے۔
کنسلٹنٹ چندلمحوں کیلئے رکا،رپورٹ میں بڑا سسپنس اور دلچسپ تھی، تمام افراد انکی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کنسلٹنٹ نے ڈائریکٹرز کی طرف دیکھا اور بولے،اس کے بعد مزید لوگ کچن میںآتے جاتے رہے اور ڈش میں اپنی مرضی کی چیزیں ڈالتے رہے،کوئی اس میں کالی مرچ ڈال دیتا،کوئی ادرک،کوئی آلو،کوئی پیاز،کوئی انڈے ڈال دیتاہے۔کوئی چولہا تیز کردیتا،کوئی چولہا نرم کردیتا۔کوئی اس میں پانی ڈال دیتا،کوئی دودھ ڈال دیتا۔آپ بتائیں اس ڈش کا کیا بنے گا؟تمام ڈائریکٹر ز فوراً بولے ’’ وہ ڈش کھانے کے قابل نہیں رہے گی‘‘۔کنسلٹنٹ مسکرایا اور آہستہ سے بولا ! آپکی کمپنی کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے،کمپنی کا ہر نیا صاحب،نیا ڈائریکٹر اپنی مرضی،اپنی سوچ کے مصالحے ڈال رہا ہے چنانچہ آپکی کمپنی بند ہورہی ہے۔
خسارے میں چلنی والی امریکی ملٹی نیشنل کمپنی سے خسارے میں چلنے والا پاکستان یاد آگیا۔خسارے کی وجہ وہی ہے جو اس ملٹی نیشنل کمپنی کی تھی۔75سال سے ڈش تیار ہورہی ہے،کمپنی کے لاتعداد ڈائریکٹر ہیں،جو بھی آتا ہے اپنی مرضی اور سوچ سے ڈش میں مصالحے ڈال ڈال رہا ہے،ہر آنیوالا ڈائریکٹر پچھلے ڈائریکٹر کو گالیاں نکالتا ہے کہ وہ بے وقوف تھا،جاہل تھا،اسے کیا معلوم ڈش کیسے تیار کی جاتی ہے۔دیکھنا، میں کیسے ڈش تیار کرکے دیتا ہوں۔زیادہ تر تو یہ ہورہا،پرانے ڈائریکٹرز جنہیں خراب کارکردگی سے نکالا ہوتا ہے وہ دوبارہ کسی نہ کسی طریقے سے سفارش یا رشوت دیکر کمپنی میں آتے ہیں آکر پھر دعویٰ کرتے ہیں پچھلی بار غلطی ہوگئی تھی،اس بار دیکھنا۔زیادہ دور نہیں جاتا،گزشتہ پانچ سال کا مطالعہ کرلیں۔
حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق پی ٹی آئی کے دور میں شرح نمو6اعشاریہ ایک تھی جبکہ آئی ایم ایف نے بھی تصدیق کی ہے کہ عمران دور میں شرح نمو6اعشاریہ ایک تھی۔جونہی نئے ڈائریکٹر آئےڈش میں اپنی مرضی کے مصالحے ڈالے شرح نمو منفی زیرو اعشاریہ3پر چلی گئی۔گزشتہ40سالوں میں پہلی بارٹیکسٹائل100فیصد بحال ہوگئی تھی،اب70فیصد ٹیکسٹائل بند پڑی ہے۔رجیم چینج کے وقت زرمبادلہ کے ذخائر20ارب ڈالر سے زائد تھے،اب زرمبادلہ کے ذخائرساڑھے3ارب ڈالر رہ گئے ہیں ،وہ بھی سارے پیسے سعودی عرب،امارات اور چین کے ہیں۔پٹرول150 میں ملتا تھا،جو 254کا ہوچکا۔چینی80 سے150 تک پہنچ چکی۔گیس کا جو بل400 سے500 تک آتا تھا،اب2500 سے2700 تک آرہا اور ساتھ18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ۔بجلی کی طرف آئیں،فی یونٹ25 روپے تھا،اب 56روپے ہوگیا۔اشیا خوروش اور الیکٹرونک اشیاکی قیمتوں میں 100فیصد اضافہ ہوچکا۔
ہنڈا70موٹر سائیکل کی قیمت75ہزار تھی اب ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہوچکی۔آٹے کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی۔پاکستان دنیا کا چھٹا مہنگا ترین ملک بن چکا۔آپ پاکستان کا اپنے کسی بھی ہمسایہ ملک سے موازنہ کرکے دیکھ لیں،آپکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔بھارت سے موازنہ کرلیں،سرحد کے اِس طرف آٹا 170 روپے کلو، کوکنگ آئل 650 روپے کلو، چینی 150 روپے کلو، بجلی کا یونٹ 56 روپے، ڈی اے پی کھاد 9500 روپے، یوریا 3250 روپے، سوزوکی کمپنی کی چھوٹی سے چھوٹی گاڑی 22 لاکھ، حج اخراجات 12 لاکھ روپے کم از کم ہیں۔سرحد کے اُس پار آٹا 30 روپے کلو، گھی 230 روپے کلو، چینی 60 روپے کلو، بجلی کسانوں کیلئے فری ،غریبوں کیلئے فری جبکہ امیر طبقے کیلئے 15 روپ فی یونٹ، ڈی اے پی کھاد 1125 روپے کی، یوریا 268 ، سوزوکی کمپنی کی چھوٹی لگژری گاڑی 3 لاکھ 54 ہزار روپے کی ۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہندو ملک اور ہندو راج ہوتے ہوئے بھی حج 4 لاکھ کا ہے۔پاکستان کے ان برے حالات کی آخر وجہ کیا ہے ؟وجہ صرف اتنی ہے،بھارت کے کچن میں کمپنی کے ڈائریکٹر مداخلت نہیں کرتےجبکہ پاکستان کے کچن میں کمپنی کے ہر ڈائریکٹر کا مکمل کنٹرول ہے،جو اپنی مرضی کے مصالحے ڈالتے رہتے ہیں۔ڈش اتنی خراب ہوچکی اورنوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے پاکستانی عوام بھوکے سوئیں گے۔ خسارے میں چلنے والی امریکی کمپنی کے کنسلٹنٹ نے آخر میں ڈائریکٹر کو کہا تھا’’جس گھر میں باورچی زیادہ ہوتے ہیں اس گھرکے مالکان بھوکے سوتے ہیں‘‘۔
نوٹ ،اے ون ٹی وی اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں03334049991پر ویٹس اپ کریں۔