برطانیہ کے بادشاہ چارلس کو شاہانہ تقریب میں تاج پہنایا گیا، تاج پوشی کی یہ رسمی تقریب کوئی سات دہائیوں بعد منعقد ہوئی، تقریب میں 100 عالمی رہنما شریک تھے اور لاکھوں ناظرین نے اس کو ٹیلی ویژن پر براہ راست دیکھا ۔
ہمارا میڈیا بھی اس بادشاہ کی تقریب کو براہ راست دکھاتا رہا جن کی ڈیڑھ سو سال غلامی کی تھی۔ رسم تاج پوشی 1066 میں 74 سالہ ولیم فاتح کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ تقریب میں سرخ رنگ کی وردیوں اور کالے ریچھ کی کھال کی ٹوپیوں میں ملبوس سیکڑوں فوجی بکنگھم پیلس جانے والے عظیم الشان بلیوارڈ مال کے راستے پر قطار میں کھڑے تھے۔دسیوں ہزار لوگ ہلکی بارش کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے بادشاہ کو دیکھنے کیلئے آئے تھے۔ میرا موضوع یہ نہیں کہ وہاں جمہوریت پسند سیکڑوں افراد نے احتجاج بھی کیا، انہوں نے بینر لہرائے جن پر لکھا تھا ’’یہ میرا بادشاہ نہیں‘‘۔ نہ ہی میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں تقریب میں اینڈریو لائیڈ ویبر کا تیار کردہ نیا ترانہ شامل کیا گیا تھا۔ نہ ہی مجھے اس بات میں دلچسپی ہے کہ بادشاہ نے بیت المقدس سے لائے گئے مقدس زیتون کے تیل سے مسح کیا اور انہیں تاریخی عصا سے نوازا گیا۔
اس بات پر بھی بحث کی کیا ضرورت کہ ہندو خاندان سے تعلق رکھنے والے برطانوی وزیراعظم رشی سنک نے بائبل کی تلاوت سے تقریب کا آغاز کیا۔ ملکہ کے تاج میں کوہ نور ہیرا نہیں تھا، سینٹ ایڈورڈ کا شاندار تاج جسے شاہ چارلس صرف ایک مرتبہ پہنیں گے، بادشاہ کے چھوٹے بیٹے ہیری نے باپ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے، انکی اہلیہ نے تقریب میں شرکت ہی نہیں کی، ہمارا ان باتوں سے کیا لینا دینا۔ میرا موضوع ہے ’’ٹی سی‘‘۔ بتاتا چلوں جب تقریب جاری تھی، آپ نے دیکھا ہوگا جب بادشاہ سلامت پیدل آ رہے تھے جیسے رخصتی کے وقت دلہن سٹیج سے اتر کر دولہے کی گاڑی کی جانب جا رہی ہو، پیچھے سے اس کی سہیلیوں نے اس کا لہنگا اٹھایا ہوتا ہے تاکہ وہ کہیں کسی کے پائوں تلے نہ آ جائے اور دلہن گر جائے۔ ایسے ہی بادشاہ کے پوشاک کی ٹیل پیچھے کچھ افراد نے اٹھائی ہوئی تھی۔ ان افراد کو ’’tail carriers‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا مخفف ’’TC‘‘ بنتا ہے۔
بادشاہ کی ٹیل اٹھانے والے انکے ملازم نہیں ہوتے بلکہ ان کے خاندان میں ایسے افراد جن کو نوبل انعام ملا ہو انکے بچے ہوتے ہیں، تقریب کے بعد یہ بچے معروف ہو جاتے ہیں، انہیں کروڑوں افراد نے دیکھا ہوتا ہے، یہی شناخت آگے چل کر انکی ترقی کی سیڑھی ثابت ہوتی ہے اور وہ بڑے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہا جا سکتا ہے ٹیل اٹھانے والے ترقی کر جاتے ہیں۔ ہم کچھ الٹا چلنے والے لوگ ہیں، ہم نے TC کا پنجابی میں کچھ اور ترجمہ کیا ہے، جو لکھا نہیں جا سکتا، ویسے آپ سمجھ ہی گئے ہونگے۔ حالانکہ اس ترجمہ کے مطابق بہت ساری نظمیں لکھی جا چکی ہیں۔ان کا اور ہمارا بس اتنا فرق ہے، برطانوی بادشاہ کے پیچھے’’Tail carriers‘‘ ہوتے ہیں، ہمارے ’’بادشاہوں‘‘ کے آگے ’’Tail carriers‘‘ ہوتے ہیں۔ حاصل ایک ہی ہے، ہمارے ’’ٹیل‘‘ اٹھانے والے انکی طرح ہی ترقی کرتے ہیں۔
لیکن ایک بات میں ہم ان سے سیکڑوں گنا آگے ہیں، ان کا تو صرف ایک ہی بادشاہ ہوتا ہے اور وہ ٹیل اٹھانے کا موقع کئی سالوں بعد آتا ہے، جیسے اس بار کوئی 70سال بعد آیا، ہمارے ہاں تو ہزاروں کی تعداد میں بادشاہ ہوتے ہیں، ہر شعبے، ہر ادارے میں ’’بادشاہ‘‘۔ اسی لئے تو ہمارے ہاں لوگ چند دنوں میں ترقی کی منازل طے کر لیتے ہیں۔ اسی’’ فارمولے ‘‘ کے تحت پاکستان پر کیسے کیسے افراد کو سوار کیا گیا، ایک ایسا شخص وزیراعظم بنا، حلف برداری کیلئے اس کی شلوار قمیض تیار کی گئی، جب پہننے لگا تو اسے آزار بند باندھنا نہیں آتا تھا، الاسٹک ڈالی گئی۔ اداکار رنگیلے کا شاگرد حکمران بنا دیا گیا، دہی بھلے کھلانے والے کو صدر مملکت بنا دیا گیا تھا۔ ملک کی تباہی کوئی اچانک نہیں ہوئی، آپ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں آپکو ان کے سربراہ اور بڑے عہدوں پر فائز ’’ٹیل کیریئر‘‘ ہی ملیں گے۔ ہمارے اپنے شعبے میں بہت سارے بڑے عہدوں پرفائز ’’صحافی ‘‘ میٹرک، انڈر میٹرک ہیں ۔
’’ٹیل کیرئیر‘‘ بنتے کیوں ہیں؟ ظاہر ہے ہر نالائق، نالائق اور نیم خواندہ شخص کے پاس ترقی کرنے کا یہی ایک راستہ ہوتا ہے جسے وہ اپناتا ہے۔ جب ایسے شخص بڑے عہدوں پر فائز ہونگے تو وہ کیسے خود سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد کو نوکری دینگے، اگر کسی کو ان کے ماتحت نوکری مل بھی جائے تو وہ انہیں کام کرنے نہیں دیتے، انہیں بدتمیز، نالائق ثابت کر کے فارغ کروا دیتے ہیں۔ اوپر سے لیکر نیچے تک دیکھ لیں سب ’’ٹیل کیریئر‘‘ چھائے ہوئے ہیں، ہمارا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے یا ہمارے ٹیلنٹ سے دیگر ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں، کوئی ایک شعبہ جو عالمی معیار کے مطابق ہو؟جو کچھ گورے چھوڑ کر گئے وہی ہمارے پاس ہے، قانون سے لیکر انفراسٹرکچر تک۔ یہاں تک ہم نے تو چاند دیکھنے کیلئے سیکڑوں افراد بھرتی کئے ہوئے ہیں۔
میرے ایک دوست ترقی نہ ہونے پر شکوہ کر رہے تھے، میں نے مذاق کیا ’’ٹیل کیرئیر‘‘ بن جائو، کہنے لگا میں تو بننا چاہتا ہوں لیکن کیا کروں ۔۔۔؟ میں نے وضاحت پوچھی، کہنے لگے تعداد ہی بہت زیادہ، کوئی ’’ٹیل‘‘ ایک منٹ کیلئے نہیں چھوڑتا، کوئی چھوڑے تو میں پکڑوں۔ میرا حکومت سے مطالبہ ہے جیسے آجکل دھڑا دھڑ بل اور قانون پاس ہو رہے ہیں، ایک بل یہ بھی پاس کر دیں، پاکستان میں سال کا آغاز ’’یوم ٹیل کیرئیر‘‘ منا کر کیا جایا کرے گا۔
نوٹ ،اے ون ٹی وی اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں03334049991پر ویٹس اپ کریں۔