نیلسن منڈیلا دو دہائیوں سے زیادہ وقت جیل میں گزارنے کے بعد بالآخر جنوبی افریقہ کے صدر بن گئے تو اپنی سکیورٹی ٹیم کے ساتھ شہر گھومنے گئے اور وہیں راستے میں ایک ہوٹل میں کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ وہاں انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنا کھانا آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ نیلسن منڈیلا نے اپنے سکیورٹی افسر سے کہا اس شخص سے کہیں اپنا کھانا لیکر ہماری میز پر آ جائے اور یہیں بیٹھ کر ہمارے ساتھ کھائے۔ وہ شخص آ گیا، کھانا کھانے کے دوران اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے، کھانا ختم کر کے وہ چلا گیا تو نیلسن منڈیلا کا سکیورٹی گارڈ بولا یہ شخص بیمار لگتا ہے کیونکہ اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے، حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔
نیلسن منڈیلا نے جواب دیا، یہ بیمار نہیں، ڈرا ہوا تھا کہ شاید میں اس کے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو یہ میرے ساتھ جیل میں کرنے کا عادی تھا۔ نیلسن منڈیلا نے بتایا کہ میں جس جیل میں قید تھا یہ وہاں گارڈ تھا، یہ مجھ پر شدید تشدد کیا کرتا، جب میں نڈھال ہو کر پانی مانگتا تو یہ میرے سر پر پیشاب کر دیتا تھا۔ آج اس کے ہاتھ اس لئے کانپ رہے ہیں کہ میں صدر ہوں، اسے لگا میں انتقام لوں گا لیکن انتقام ایک ایسا جذبہ ہے جو قوم کی تعبیر میں مدد دینے کے بجائے اسے برباری کی طرف لے جاتا ہے جبکہ صبر اور صلہ رحمی کا جذبہ قوم کی تعمیر میں مدد دیتا ہے۔ نیلسن منڈیلا نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے ایک تاریخی سچ ان الفاظ میں بیان کیا کہ ’’کمزور شخصیت کے لوگ معاف کرنے میں تاخیر سے کام لیتے ہیں جبکہ مضبوط کردار کے لوگ معاف کرنے میں دیر نہیں کرتے‘‘۔
اقتدار اور اختیارات ایسا نشہ ہے جس میں مدہوش ہو کر آدمی ظالم اور جابر بن جاتا ہے، اسی مدہوشی کے عالم میں یہ نہیں سوچتا کہ وقت ایک جگہ نہیں ٹھہرتا، دن تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ نہیں یقین تو کبھی رنگون جائیں، آپکو ڈیگن ٹائون شپ کی کچی گلیوں میں بدبودار جھگیاں نظر آئیں گی جہاں بہادر شاہ ظفر کی نسل سے کچھ لوگ ملیں گے جو سرکار کے وظیفے پر پل رہے ہیں۔ ظلم اور جبر کی آندھی کتنے دن چلے گی؟ ہیراڈ اعظم، نیرو، پوپ الیگزینڈر ششم، کلیگولا، کنگ جان، میکسی میلین روبسپیار، چنگیز خان، ولاد دی امپیلر، آؤان دی ٹیریبل، اٹیلا دی ہن، لیوپولڈ دوئم، پول پاٹ، ایمپرر ہیروہیٹو، جوزف اسٹالن، ایڈولف ہٹلر، ان حکمرانوں نے بھی سیاسی مخالفین اور عوام کو بے دردی سے مارا تھا، ان کے انجام کیا ہوئے؟ یہ عقل مندوں کیلئے نشانیاں ہیں، جاہلوں اور نالائقوں کیلئے نہیں۔
9 مئی کو جو ہوا بہت بات ہو چکی، حکومت شہدا کی وارث بن بیٹھی، انکے نام پر سیاست شروع کر دی، شہباز شریف، رانا ثنا، خواجہ آصف بتا دیں انکے خاندان میں کسی نے ملک کی خاطر جان قربان کی؟ چلو یہ ہی بتا دیں کسی شہید کے خاندان کی کفالت کرتے ہوں؟9 مئی کو اور بھی بہت کچھ ہوا، ان کا ذکر کیوں نہیں؟ عمران خان کے بقول 25 افراد پولیس کی گولیوں سے قتل ہوئے، ان کا نام کیوں نہیں لیا جا رہا؟ ایک انسا ن کا قتل تو پوری انسانیت کا قتل ہے۔ تحریک انصاف کے ہر کارکن کو گھر سے اٹھایا جا رہا، کیوں؟ پولیس گھروں میں داخل ہو کر خواتین پر تشدد، بدتمیزی کر رہی، عدالت رہا کرتی ہے تو دوبارہ پھر پکڑ لیا جاتا ہے۔ ایک ایک شخص کی عدالت چار، چار بار رہائی کر چکی لیکن وہ پھر بھی جیلوں میں ہیں۔ شاہ محمود ضمانت کے باوجود پانچ دن سے رہا نہیں ہو رہے، عوام سے کس چیز کا بدلہ لیا جا رہا؟ صرف اسی لئے وہ عمران خان کو چاہتے ہیں۔ کیا اتنا بدلہ کم تھا کہ غریبوں سے دو وقت کی روٹی چھین لی۔ کیا طاقت سے لوگوں کے نظریات ختم کئے جا سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے عوام کبھی آزادی کا نام نہ لیتے۔ آپ طاقت سے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں؟ آپ بندوق کی نوک پر لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا چاہتے ہیں؟
کسی کا حکم ہے!
ساری ہوائیں، ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں، کہ ان کی سمت کیا ہے؟ ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہو گا، چلیں گی جب تو کیا رفتار ہو گی؟ کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے، ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں، یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں، حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری، اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن، یہ سب ہی جانتے ہیں۔
کسی کا حکم ہے!
دریا کی لہریں، ذرا یہ سرکشی کم کر لیں، اپنی حد میں ٹھہریں، ابھرنا اور بکھرنا، اور بکھر کر پھر ابھرنا، غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا، یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت، بغاوت کی علامت، بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی، یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی، اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا، تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا۔
کسی کا حکم ہے!
اس گلستاں میں بس اب اک رنگ کے ہی، پھول ہوں گے، کچھ افسر ہوں گے، جو یہ طے کریں گے، گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے، مگر یہ رنگ ہوگا، کتنا گہرا، کتنا ہلکا، یہ افسر طے کریں گے۔
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے!
ہوائیں اور لہریں، کب کسی کا حکم سنتی ہیں، ہوائیں، حاکموں کی مٹھیوں میں، ہتھکڑی میں قید خانوں میں، نہیں رکتیں، یہ لہریں، روکی جاتی ہیںتو دریا جتنا بھی ہو پر سکوں، بے تاب ہوتا ہے، اور اس بے تابی کا اگلا قدم، سیلاب ہوتا ہے۔
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے۔
(جاوید اختر)
نوٹ ،اے ون ٹی وی اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں03334049991پر ویٹس اپ کریں۔