اہم خبریںبلاگ

ن لیگ اپنے گریبان میں جھانکے(تحریر.ستار چودھری)

صدر جنرل پرویز مشر ف کا دور تھا، شوکت عزیز وزیر اعظم تھے، پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ 14 فروری 2006 کی بات ہے، دفتر جانے کا وقت تھا، معلوم ہوا مال روڑ بند ہے کوئی اور راستہ تلاش کیا جائے۔ مسئلہ کیا تھا؟ ناروے میں ایک ملعون نے گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے اور لاہور میں اس کیخلاف احتجاج کیا جا رہا تھا۔ لاہور مال روڑ کے ریگل چوک سے شملہ پہاڑی تک ریلی نکالنے کا پروگرام تھا، اس احتجاج کو لیڈ ن لیگ کر رہی تھی جن کے کپتان خواجہ سعد رفیق تھے، ان کے ساتھ کچھ مذہبی جماعتوں کے رہنما اور کارکن تھے۔

سعد رفیق اور دیگر افراد مظاہرین کو مذہب کے نام پر اشتعال دلا رہے تھے، اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں، کوئی بھی احتجاج ہو، کسی بھی پارٹی کا ہو، اس میں بہت سارے افراد اپنے اپنے دکھ لیکر شامل ہوتے ہیں، کسی کو بے روزگاری کا دکھ، کسی کو کاروبار میں نقصان کا دکھ، کوئی مہنگائی کے ہاتھوں دکھی، کسی کو حکمرانوں سے نفرت، کوئی غربت کا مارا ہوا، کوئی عدالت، کوئی پولیس کا ستایا ہوا۔ سب اپنا اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ پیشہ وارانہ ’’ڈکیٹ‘‘ بھی شامل ہو جاتے ہیں جو اپنی وارداتیں ڈالتے ہیں، سب سے زیادہ غصہ تو ن لیگ کے رہنمائوں اور کارکنوں کا تھا، جن کی پرویز مشرف نے چلتی ہوئی حکومت گرائی تھی، مقدمات قائم کئے تھے اور نواز شریف ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب میں مقیم تھے۔

ن لیگ کو پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ بھی ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی، ان کے دلوں میں نفرت کا زہر بھرا ہوا تھا، یہ وہی دن تھے جب نواز شریف کے بڑے بڑے جانثار انہیں چھوڑ کر حکمران پارٹی میں شامل ہو چکے تھے، موجودہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی والدہ طاہرہ اورنگزیب بھی بے وفائوں میں شامل تھیں، حالانکہ وہ شریف خاندان کی ذاتی ملازمہ تھیں۔ تمام مظاہرین مذہب کے نام اپنا اپنا غصہ نکالنے کیلئے ریگل چوک پر جمع ہو گئے، مظاہرین نے آغاز ہی جلائو گھیرائو، توڑ پھوڑ سے کیا، سب سے پہلے تو ایک غیر ملکی شاخ کے ریسٹورینٹ میں داخل ہوئے، لوٹ مار کے بعد اسے آگ لگا دی۔ اس کے بعد مظاہرین بے قابو ہو گئے، مال روڑ پر لوٹ مار شروع ہو گئی، آہستہ آہستہ مظاہروں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا، بہت سارے ریسٹورینٹ لوٹ مار کے بعد نذر آتش کر دیئے گئے، اے ٹی ایمز توڑ کر پیسے نکال لئے گئے۔

جب ریلی سعد رفیق کی قیادت میں پنجاب اسمبلی کے پاس پہنچی تو انہوں نے اسمبلی عمارت پر دھاوا بول دیا، یہ ن لیگ کے غصے کی انتہا تھی، غصہ صرف پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کا تھا، عمارت کے دائیں حصے کو آگ لگا دی گئی، عمارت میں قائد اعظم کی بہت بڑی تصویر آویزاں تھی، اس تصویر کو توڑ دیا گیا اور اسے آگ لگا دی گئی، جب قائد کی تصویر کے ساتھ بے حرمتی کا واقعہ پیش آ رہا تھا اسے بچانے کی صرف ایک ہی شخص نے کوشش کی تھی، اس کا نام تھا ڈی ایس پی حق نواز بلوچ۔ جب حق نواز بلوچ نے قائد کی تصویر کو بچانے کی کوشش کی تو ن لیگ کے کارکنوں نے ان پر حملہ کر دیا، اس حملے میں حق نواز کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا، ان کے دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹی تھی۔ اب آتے ہیں 9 مئی کی جانب، اس دن عمران خان کی گرفتاری کیخلاف مظاہرے شروع ہوئے، مظاہرین میں حسب سابق محرومیوں کے مارے ہوئے افراد بھی شامل ہوئے۔

کچھ پیشہ وارانہ بھی کور کمانڈر ہائوس پہنچ گئے، یہ الگ بات انہیں وہاں جانے کیلئے کس نے کھلا راستہ دیا تھا؟ لیکن یہ بات کتنے لوگ جانتے تھے کور کمانڈر ہائوس ’’جناح ہائوس‘‘ ہے؟ اگر کوئی شخص یہ جانتا بھی تھا کہ یہ جناح ہائوس ہے، وہ یہ بھی جانتا تھا قائد اعظم نے تو یہاں ایک دن بھی قیام نہیں کیا، پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں یہاں تو فوجی افسر ہی رہے ہیں۔ سب سے بڑی توہین تو یہ ہے قائد کو اپنے گھر کا قبضہ نہیں ملا تھا۔ میں یقین سے کہتا ہوں کوئی بھی پاکستانی اپنے قائد یا شہدا کی توہین نہیں کرتا، ان کا بے حد احترام کرتا ہے، جنہوں نے قائد کی توہین کی تھی سب ریکارڈ پر ہے، تاریخ پر پردے نہیں ڈالے جا سکتے۔ ویسے بھی کوئی دو صدیاں نہیں گزریں، وہ نسل ابھی زندہ ہے جنہوں نے قائد اور انکی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ ہونیوالے سلوک کو دیکھا ہوا ہے۔ اپنی سیاست چمکانے، مخالف کے خلاف نفرت پیدا کرنے کیلئے قومی ہیروز اور مذہب کا استعمال، انتہائی شرم کی بات ہے۔

قومی ہیروز اور مذہب کا استعمال ہمیشہ وہی کرتے ہیں جو میدان میں مقابلہ کرنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں، اگر ہمت ہے تو ن لیگ کو میدان میں آ کر مقابلہ کرنا چاہیے، جناح اور شہدا کے پیچھے کھڑے ہو کر سیاست نہ کرے، اگر جناح کے نام پر ہی سیاست کرنی ہے تو اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں، سعد رفیق کی سربراہی میں کارکنوں نے جو قائد کی تصویر کے ساتھ سلوک کیا تھا اور خرم دستگیر کے والد غلام دستگیر نے قائد کی ہمشیرہ کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔

نوٹ ،اے ون ٹی وی اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں03334049991پر ویٹس اپ کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button