پیرو کے جنگلوں میں ایسے مینڈکوں کا پتہ چلا ہے جو ایک ہی جیون ساتھی کے سہارے زندگی گزارتے ہیں۔ پانی اور زمین دونوں پر رہنے والے جانوروں میں یہ پہلی مثال ہے۔ممک پوائزن کہلانے والے ان مینڈکوں پر تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں نر اور مادہ انتہائی وفادار ہوتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے نہ بھٹکنے کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے اس تالاب کا رقبہ جس میں یہ بچے رکھتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے ایک ہی جیون ساتھی کے ساتھ زندگی گزارنے کی یہ اب تک جمع کیے گئے شواہد میں سب سے اچھی مثال ہے ۔
امریکی میگزین ’’دی امریکن نیچرلسٹ‘‘ نے ان مینڈکوں کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس کے مطابق مباشرت کے بعد مادہ مینڈک پتوں کی سطح پر انڈے دیتی ہے۔ بچے نکلنے کے بعد ان کا باپ مینڈک انہیں ایک ایک کر کے پیٹھ پر بٹھا کر درختوں کی اونچی شاخوں پر پتوں میں جمع ہونے والے پانی میں چھوڑ آتا ہے۔ ہر بچے کو الگ الگ تالاب میں رکھا جاتا ہے اور نر مینڈک ہی ان کی دیکھ بھال بھی کرتا ہے۔ بچوں کی بھوک مٹانے کیلئے باپ ان کی ماں کو آواز دیتا ہے جو ہر تالاب میں جا کر بچوں کے کھانے کیلئے انڈہ دیتی ہے۔
بظاہر بہت سے جانور ایک ہی جیون ساتھی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور بچے پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کئی موقع ملنے پر کبھی کبھار اپنے جیون ساتھی کو دھوکہ بھی دیتے ہیں۔اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ماہرین نے ممک پوائزن مینڈک پر مزید تحقیق کی۔
انہوں نے ان مینڈکوں کے 12 جوڑوں کی زندگی کا مشاہدہ کیا۔ ان میں سے 11 ایک ہی ساتھی کے ساتھ رہے جبکہ ایک مثال ایسی تھی جس میں ایک نر مینڈک دو مادہ مینڈکوں کے ساتھ تھا۔ تحقیق میں شامل ڈیوک یونیورسٹی کے ڈاکٹر براؤن نے بتایا کہ یہ مینڈک حقیقت میں اپنے بچوں اور ایک دوسرے کیلئے جیتے ہیں۔
ممک پوائزن کہلانے والے مینڈکوں کی وفاداری سے پرویز خٹک یاد آ گئے۔ 2013 سے پہلے یہ نام کسی نے کم ہی سنا ہوگا۔ تحریک انصاف وفاق میں زیادہ نشستیں نہ جیتنے پر اپوزیشن میں آ گئی لیکن خیبر پختونخوا میں کامیاب ٹھہری، وزارت اعلیٰ کیلئے پرویز خٹک کا نام سامنے آیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ موصوف پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر بھی ہیں، مزید انکشاف ہوا کہ جناب خٹک صاحب عمران خان کے ایچی سن کالج میں کلاس فیلو بھی تھے۔ بہرحال خٹک صاحب پانچ سال وزیراعلیٰ رہے، پورے صوبے میں سیاہ و سفید کے وہ ہی مالک تھے۔
یہ بات کبھی منظر عام پر نہیں آئی اور نہ ہی انہوں نے کبھی اظہار کیا کہ انکے کاموں میں عمران خان مداخلت کرتے ہیں۔ پرویز خٹک کو عمران خان کی ٹیم کا اوپنر بلے باز کہا جاتا تھا، پارٹی میں کوئی بھی کام انکی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ خٹک صاحب خود اعتراف کر چکے ہیں کہ اکثر معاملات میں انکی سوچ، ان کا مشورہ عمران خان سے مختلف ہوتا تھا لیکن آخر کار کپتان انکی بات مان جاتے تھے۔ 2018 میں تحریک انصاف نے وفاق میں حکومت قائم کی، عمران خان کو اب وفادار اور بڑے قد والے پارٹی رہنمائوں کی ضرورت تھی، اس لئے وہ خٹک کو وفاق میں لے آئے۔اپوزیشن سے مذاکرات ہوں یا اسٹبلشمنٹ سے خٹک پارٹی کی ٹیم کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے۔ جو رجیم چینج کے بعد انتخابات کیلئے حکومت سے مذاکرات ہوتے رہے پرویز خٹک، اسد عمر، شاہ محمود قریشی ہی کرتے رہے۔ 9 مئی آیا، پارٹی کا امتحان شروع ہو گیا۔ برا وقت ایک ایسی لیب ہے جو وفادار اور بے وفا دوستوں کو الگ الگ کر کے پہچان کرا دیتا ہے۔
وفاداریاں زوال پر ہی نبھائی جاتی ہیں
عروج پر تو خواجہ سرا بھی ناچنے آجاتے ہیں
اچھے وقت میں تو تحریک انصاف کا ہر رہنما عمران خان بنا ہوا تھا جونہی برا وقت آیا بھاگنے شروع ہو گئے۔ وہ بھی بھاگ گئے جو کہا کرتے تھے پارٹی سے نکالنا ہے تو انہیں گولی مار دی جائے۔ بہرحال بات پرویز خٹک کی ہو رہی ہے۔ اپنی پارٹی کا اعلان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے عمران خان نے انہیں سائیڈ لائن پر لگایا ہوا تھا۔ انہیں کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی تھی۔ ہائے خٹک صاحب! آپ نے تو پشتونوں کی روایات کو ہی دفن کر دیا، ہم تو انکی وفاداریوں کی مثال دیا کرتے تھے، آپ کو تو صرف جسمانی طور پر کمزور سمجھتے تھے ،آپ تو ہر لحاظ سے کمزور نکلے، اب اپنے دوست پر الزام بھی لگانے لگے ہو۔خدشہ ہے آپ ان کیخلاف وعدہ معاف گواہ بھی بن جائیں گے۔خٹک صاحب! یقین کریں مجھے تو آج آپ سے پیرو میں پائے جانیوالے ممک پوائزن مینڈک بھی اچھے لگنے لگے ہیں۔
وفاداریاں زوال پر ہی نبھائی جاتی ہیں
عروج پر تو خواجہ سرا بھی ناچنے آ جاتے ہیں