بابا انور عمر75سال،پرنٹنگ مشین پر کام کرنے میں مصروف،وقفہ ہوا،پسینہ صاف کیا،کولر سے ٹھنڈے پانی کا گلاس بھر کر بینچ پر بیٹھ گیا،چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیکر پی رہا تھا۔ان سے پوچھا ! بابا جی یہ عمر کام کرنے والی نہیں،آپ کو آرام کرنا چاہیے۔
انہوں نے میری طرف غور سے دیکھا اور بولے، پتر ! ہم کام نہیں کرینگے تو ججوں اور انکے بچوں،اے سی ،ڈی سی اور ان کے خاندانوں،جرنیلوں اور انکے اہل خانہ،اشرافیہ اور انکے اہل وعیال،وزرا اوران کے بیوی ،بچے، گاڑیاں،بنگلے،اپنے بچوں کی بیرون ملک تعلیم،یورپ میں علاج ،امریکا کی سیر،حج،عمرے کیسے کرسکیں گے؟بابا جی ! آپکے فلسفے کی سمجھ نہیں آئی ؟ بیٹا ! یہ کوئی فلسفہ نہیں،آپ بھی سب جانتے ہیں،بلکہ ہر بندہ جانتا ہے،بس لبوں پر تالے لگے ہوئے ہیں،خوف کا عالم ہے،ہر شہری ڈرا ہوا ہے۔
چل بتائو !یہ جو ایک لیٹر پٹرول پر ہم100روپے سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں ،ایک دن میں اربوں روپے اکٹھے ہوتے ہیں وہ کدھر جاتے ہیں ؟ہزاروں کی تعداد میں ٹول ٹیکسز جہاں روزانہ اربوں روپے کا ٹیکس ملتا،وہ کدھر جاتا ہے ؟ماچس سے لیکر تمام اشیا خورونوش، ادویات سے لیکر تمام الیکٹرونک اشیا ،پانی،گیس،بجلی کے بلوں پر جو ہم کھربوں روپے کے ٹیکسز دیتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں ؟ بیٹا ! ہم 27قسم کے ٹیکسز دیتے ہیں ۔بابا جی ! آپکی بات ٹھیک،لیکن ملک ٹیکس سے ہی چلتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں فوج جو ہماری پاک سرزمین کی حفاظت کررہی ہے،انہوں نے اسلحہ بھی خریدنا ہوتا ہے اگر ہم ٹیکس نہیں دینگے تو یہ سب کام کیسے کرسکیں گے۔
ججز جنہوں نے قوم کو انصاف دینا ہوتا ہے ظاہر ہے انہیں گاڑیاں،گھر اور دیگر سہولیات تو دیناہونگی۔اے سی ،ڈی سی ہر ضلع میں انتظامی معاملات چلاتے ہیں کیا وہ پیدل چل کر سب کام کریں؟وزرا بے چارے دن رات ملک اور قوم کی خدمت کرتے ہیں،قوم کا فرض بنتا ہے انکی تمام ضروریات پوری کریں۔بابا جی نے جیب سےپیکٹ نکالا،سگریٹ سلگایا،لمبا کش لیا اور بولے ! آپ کی بات ٹھیک،لیکن یہ بتائو،یہ تمام ادارے جن کاموں کیلئے قوم ان پر پیسے خرچ کررہی کیا وہ وہی کام کررہے ہیں ؟ان کی کارکردگی بتا دیں؟کیا قوم ان سے خوش ہے ؟بابا جی !تھوڑی بہت اونچ،نیچ ہوجاتی ہے،سب انسان ہیں،فرشتے تو نہیں۔۔۔ت
ھوڑی بہت اونچ نیچ؟بیٹا ! میری عمر بھی پاکستان جتنی ہے،اپنی گناہگار آنکھوں سے جنرل ایوب سے لیکر اب تک تمام ادوار دیکھے ہیں ۔آپ نے تمام ادوار دیکھے،ان کا خلاصہ کیا ہے ؟ خلاصہ وہی ،جو فرعون مصر کے دور کا تھا،لوگوں کو کھانے کیلئے صرف اتنا ہی دو جس سے وہ زندہ رہ سکیں اور سرکار کے کام کرسکیں۔جو بغاوت کرے گا اسے زندان میں ڈال دینگے یاپھانسی پر لٹکا کرمثال عبرت بنا دینگے۔
بابا جی ! لیکن ملک کا آئین اور قانون ہے جس کے مطابق سب کچھ چل رہا ہے۔بابا انورنے ہنس کرکہا۔۔۔پتر ! آئین اور قانون آزادقوموں کیلئے ہوتے ہیں،غلاموں کیلئے صرف گولی،فوج اور مذہب ہوتا ہے ۔آپ نے کہیں پڑھا نہیں !صدیوں سال پہلے ارسطو نے کہہ دیا تھا قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے ہیں لیکن بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔لیکن بابا جی ! ہم تو آزاد قوم ہیں،ہمیں آزادی کی قدر کرنی چاہیے۔مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے عوام کا حال دیکھیں ؟ پھر پتا چلے گا آزادی کیا ہوتی ہے۔۔۔
آپ کی بات سو فیصددرست،لیکن یہ بات بھی سنو،دنیا کی بدترین غلامی وہ ہوتی ہے جو آزادی کے نام پر ٹھونسی گئی ہو۔پہلے ہم گوروں کی غلامی میں تھے،اب گوروں کےچمچوں کی غلامی میں ہیں۔کوئی ایسا کام بتادیں جو ہم نے علیحدہ ملک حاصل کرکے کیا ہو؟وہی ادارے،وہی سسٹم،ہم تو انگریزی کی جگہ اردو نہیں لاسکے۔۔۔
باباجی ! ابھی ہمارے ملک اور قوم کی عمر صرف75سال ہوئی ہے،اتنے میں اتنا کچھ ہی ہوسکتا ہے،آپ کسی بھی ملک امریکا،عرب ممالک،یورپ کی عمر کے پہلے75سال دیکھ لیں،آپ کو وہ قومیں جانوروں کی طرح اور ملک کھنڈرات جیسے لگیں گے۔۔۔
میں آپکی بات سے اتفاق کرتا ہوں،ہم بھوکے رہنے اور ہر مصیبت کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن ہم عوام ہی کیوں ؟انکے بچے ہمارے پیسوں سے بیرون ملک پڑھیں اور ہمارے بچے ٹاٹ سکولوںمیں،انکےعلاج یورپ میں ہوں اور ہم گنگا رام کی سیڑھیوں پر مرجائیں،ہمارے خون پسینہ کی کمائی سے یہ عیاشیاں کریں اور ہم دووقت کی روٹی کو ترسیں،ان کیلئے نئی گاڑیاں،نئےگھر اور ہم سائیکل خریدنے کے بھی قابل نہیں رہے،کمائیں ہم اور کھائیں یہ ۔ اور اپنے حق کیلئے ہمیں بولنے کی بھی اجازت نہیں۔ہم بھوک سے مررہے ہیں اور انکی عیاشیاں ختم ہونے کو نہیں آرہیں۔۔۔
چلو بابا جی ! کافی وقت آپ کالے لیا، آخر میں آپ کیا کہنے چاہتے ہیں ؟۔۔۔ لکھ سکتے ہو؟۔۔۔انشاءاللہ۔۔۔چل لکھو ! ریاست خودکشی اور چوری کرنے کوحلال قرار دینے کا فتویٰ جاری کرے۔