حضرت امام حسین ؓ نے فرمایا! دو آدمی کبھی نہیں بھولتے، ایک وہ جس نے مشکل وقت میں ساتھ دیا ہو، دوسرا وہ جس نے مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ دیا ہو۔ مشکل وقت وہ پیمانہ ہے جو دوستوں اور دشمنوں کے اصل رویوں کا تعین کرتا ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی دن صرف 24 گھنٹے کا ہوتا ہے، وقت ٹھہرتا نہیں، گزر جاتا ہے۔ مشکل وقت کا فائدہ بھی ہوتا ہے فالتو لوگ زندگی سے نکل جاتے ہیں، کہتے ہیں مشکل وقت دنیا کا سب سے بڑا جادوگر ہے جو ایک پل میں آپکے چاہنے والوں کے چہرے سے نقاب ہٹا دیتا ہے۔
سونا آگ میں تپ کر کندن بنتا ہے۔ خلیل جبران لکھتے ہیں ’’میں نے قبرستان ان افراد کی قبروں سے بھرے دیکھے ہیں جو اس لئے نہیں بولتے تھے کہ کہیں مارے نہ جائیں‘‘۔ سکرپٹ کے مطابق دوسرے مرحلے کا آغاز ہو چکا، پارٹی کے ٹکڑے کر دینا، آغاز تو اپنے بندوں سے شروع کرایا جا رہا، روز کوئی تین، چار افراد پریس کانفرنس کرنے آیا کرینگے، سب کے پاس بولنے کیلئے ایک ہی تحریر ہو گی، ملک دشمن پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکتے، پاک فوج نے ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں، ان کیخلاف مہم شروع کرنے والوں کا ساتھ نہیں دینگے۔ فوج کیخلاف مہم کہاں؟ سب پراپیگنڈہ ہے، فوجی ہیں کون؟ کوئی میرا بھائی، کوئی بھتیجا، کوئی بھانجا، سب ہم میں سے ہیں، اسرائیل سے تو نہیں آئے؟ ہم کیوں دشمن کی زبان بول رہے۔ مسئلہ ہے کہاں؟ صرف اپنے اختیارات سے تجاوز۔ جنگل میں بھی قانون ہوتے ہیں، تمام جانور اپنے اپنے علاقوں میں رہتے ہیں، تصادم اس وقت ہوتا ہے جب کوئی جانور دوسرے کے علاقے میں گھستا ہے۔
گداگر اپنے چوک میں کسی دوسرے کو مانگنے کیلئے آنے نہیں دیتے۔ بہرحال حوصلے کو داد دینا پڑے گی ایک سال سے پولیس کا تشدد، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے۔ ایسے افراد نے بھی جیلیں دیکھ لیں جن کے بارے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ شاہ محمود قریشی کو دیکھ لیں۔ ملتان سے آٹھ، نو افراد اعلان بغاوت کرنے آئے، حالانکہ ان افراد کو پارٹی نے ٹکٹ ہی نہیں دیا تھا، بزدار حکومت کیخلاف بھی 19 افراد نے بغاوت کی تھی، کدھر ہوتے ہیں آجکل وہ باغی؟ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ سیاسی خود کشیاں۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کے جانے سے شور اٹھا تھا، پارٹی ختم ہو گئی۔ دنیا کا نظام کسی کی خواہش پر نہیں چلتا، بڑے بڑے نام مٹ گئے۔ رہے نام اللہ کا۔کہاں سکندر، کہاں ہے داراجام کہاں ہے جم کا۔۔!ایک سال سے جاری ٹورنامنٹ کا فائنل چل رہا، یہ ہاکی کا کھیل ہے، ہاکی میں ایسے ہی چلتا ہے گیند کبھی آپ کی ڈی میں، کبھی مخالف ٹیم کی ڈی میں۔ گیند اپنی ڈی میں آنے سے گھبرا نہیں جانا چاہیے، ڈٹ کر کھیلنا چاہیے۔
مشکل وقت میں ڈٹ جانے والے افراد ہی امر ہو گئے۔ لندن میں احتجاج کرتے ہوئے ایک نوجوان سے پوچھا گیا، کیا آپکے احتجاج سے نیلسن منڈیلا رہا ہو جائیں گے؟ وہ ہلکا سے طنزیہ مسکرایا اور بولا میرا کام صرف آواز اٹھانا ہے، پھر پوچھا گیا، کب تک احتجاج کرو گے؟ وہ بولا جب تک نیلسن رہا نہیں ہو جاتے۔ بندے کا کام صرف آواز اٹھانا ہوتا ہے، نتائج تو میرے رب کے پاس ہیں۔ خلوص، نیک نیتی اور ایمانداری سے کی گئی کوششیں کبھی بے کار نہیں جاتیں۔ منزل ضرور ملتی ہے، آج نہیں تو کل۔ حکایت ہے، کھیت میں بیٹھے ان پڑھ کسان نے مولانا صاحب کی تقریر سنی جو شب برآت کی فضیلت بیان کر رہے تھے، فرما رہے تھے اس رات کی عبادت ہزار مہینوں سے افضل ہوتی ہے، اس شب کو ایک ایسی گھڑی آتی ہے آدمی جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے عطا کر دیا جاتا ہے۔
بات کسان کے دل میں بیٹھ گئی۔ وہ پہلا دن تھا جب اس نے مسجد میں جاکر مغرب کی نماز با جماعت ادا کی۔ واپس کھیت میں آ گیا، یقین کامل کے ساتھ لکڑی سے بنے سہاگے کو بازوئوں پر اٹھا لیا اور دعا کرنے لگا، یا رب العالمین میرے اس لکڑی کے سہاگے کو سونے کا بنا دے، پوری رات بلک بلک کر دعا مانگتا رہا، جونہی جونہی وقت گزر رہا تھا جسم میں تھکاوٹ ظاہر ہونے لگی، بازو تھک گئے، کمر میں درد شروع ہو گئی لیکن وہ ڈٹا رہا اور دعا کرتا رہا۔ اذان فجر کا وقت قریب تھا لیکن اس کی ہمت جواب دے گئی، سہاگے کو زمین پر دے مارا اور کہا سونے کا نہیں بنتا تو لوہے کا بن جا۔۔۔ اور وہ لوہے کا بن گیا۔ پی ٹی آئی والو! رات گزر چکی ہے آپ سونے کے بننے والے ہیں، ہمت نہ ہارو، ڈٹے رہو ورنہ لوہے کے بن جائو گے۔ آجکل تو کباڑی بھی لوہا سیدھے منہ نہیں خریدتے۔
نوٹ ،اے ون ٹی وی اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں03334049991پر ویٹس اپ کریں۔