کیجریوال سے پوچھا گیا آپ عوام کو بہت زیادہ ریلیف دے رہے ہیں،کوئی نئے ٹیکس بھی نہیں لگا رہے،قرضے بھی نہیں لے رہے،اس کے باوجودبھارت کی تمام ریاستوں میں صرف آپکی حکومت منافع میں چل رہی ہے،اس کی کیا وجہ ہے ،کیا سائنس ہے کیا فارمولا ہے ؟وہ بولے صرف 2وجوہات ہیں ’’ نیت اور ایمانداری ‘‘۔انہوں نے نیت اور ایمانداری کی ایک مثال پیش کی۔
کہنے لگے ہم نے ایک فلائی اوور تعمیر کیا،اس کی لاگت کے اخراجات کا تخمینہ تھا سوا300کروڑ روپے،تعمیر مکمل ہوئی تو معلوم ہوا200کروڑ میں مکمل ہوگیا ہے۔ہمارے پاس کافی پیسے بچ گئے،کابینہ کے اجلاس میں بحث ہورہی تھی ،یہ پیسے کہاں خرچ کیے جائیں ؟میں نے وزیرصحت سے پوچھا،اگر پورے دہلی کے لوگوںکا علاج فری کردیا جائے تو کتنے پیسے خرچ ہونگے ؟دو دن بعد اس نے رپورٹ پیش کی کہ تین،سوا تین سو کروڑ خرچ آئیں گے۔میں نے اسے کہا عوام کاعلاج فری کردو،اتنے پیسے تو ہم صرف فلائی اوور اور انڈر پاس کے بجٹ میں بچت کرکے پورے کرلیں گے ۔
انہوں نے ایک اور مثال پیش کی،کہنے لگے بہار کے وزیراعلیٰ نے اپنے لئے190کروڑ کا جہاز خریدا ، میں نے وزیرٹرانسپورٹ سے پوچھا اگر ہم شہر میںحکومت کے زیر سایہ چلنےوالی بسوںمیں خواتین کا سفر فری کردیتے ہیں تو کتنا بجٹ درکار ہوگا،انہوںنے بتایاصرف ڈیڑھ سو کروڑ خرچ آئے گا۔ میں نے اپنی آسائش کیلئے کوئی جہاز یا گاڑی نہیں خریدی،اس نے190کروڑ میں جہاز خریدا تھا،میں نے ڈیڑھ سو کروڑ سے اپنے مائوں اور بہنوں کا سفر فری کردیا۔انہوںنے ایک زبردست دلیل پیش کی،کہنے لگے دیکھو ! جو لوگ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکرآتے ہیں،انہیں چار ،چار ہزار بجلی کے فری یونٹ ملتےہیں،کیا ہم ووٹر کے صرف200 یونٹ فری نہیں کرسکتے ؟ ارکان اسمبلی کا علاج فری ہوتا ہے حالانکہ وہ علاج کیلئےپیسے خرچ کرسکتے ہیں،جبکہ عوام تو زیادہ تر علاج کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ،ان کا علاج کیوں نہیں فری میں ہونا چاہیے ؟۔
سیدھاسادھا فارمولا ہے میںنے ریاست میں کرپشن ختم کرکے پیسہ بچایا اور وہ پیسے اپنی ذات یا ارکان اسمبلی پرخرچ کرنے کے بجائے عوام پر خرچ کردیئے۔جب وہ اقتدار میں آئے تھے دہلی میں لوڈشیڈنگ تھی، بجلی مہنگی تھی، سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت بری تھی، سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کررہی تھیں، شہرمیں صرف پچاس فیصد پانی کی سپلائی کیلئے پائپ لائن تھی۔آج لوڈشیڈنگ نہیں ہے، 300یونٹ تک بجلی ، سرکاری سکولوں میں تعلیم اور پانی فری ہے، ہسپتالوں میں علاج مفت ہوتا ہے۔ حکومت کا بجٹ 30 ہزار کروڑ سے بڑھ کر 75 ہزار کروڑ ہوگیا ہے اس دوران جی ڈی پی میں 150 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک اور اہم بات حکومت نے مختلف ایپس بنا رکھی ہیں، آپ ہر وقت ایپ کے ذریعے سکول میں گئے ہوئے بچے کو گھر سے چیک کر سکتے ہیں۔
لوگوں کی حفاظت کیلئے اتنے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دیئے گئے ہیں کہ دہلی، نیویارک، لندن اورشنگھائی سےاس معاملے میں آگے نکل گیا ہے۔ دہلی کا کوئی بھی شہری جس نے پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ڈومیسائل یا پھر کوئی لائسنس بنوانا ہو وہ ایپ یا بذریعہ فون بتائے گا کہ میں فلاں وقت گھر پر ہوں گا اور مجھے ڈومیسائل یا لائسنس بنوانا ہے۔اب شہری کا کام ختم، اب کیجریوال سرکار کا کام شروع۔ دلی کے شہری کے بتائے گئے مقام پر ایک ٹیم آئے گی، ان کے پاس فوٹو کاپی مشین بھی ہوگی۔ یہ ٹیم اپنی کارروائی کرکے چلی جائے گی، اس کارروائی کے بعد سات دن کے اندر حکومت پابند ہوگی کہ وہ شہری کا ڈومیسائل یا لائسنس اس کے گھر پر مہیا کرے۔
اس طرح شہری کو نہ کہیں جانا پڑا، نہ دفتروں میں دھکے کھانے پڑے اور نہ ہی کسی کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ اسے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے گھر پر مہیا کر دی جاتی ہے۔یاد آیا کیجریوال ہندو ہیں، یعنی کہ’’ کافر‘‘،جن کی نیت اور ایمانداری کی مثال ہم ’’مومنوں‘‘ کو دینی پڑ رہی ہے۔دہلی لاہور سے 491کلومیٹر دور ہے۔جہاں ’’نیت اور ایمانداری‘‘ سے انقلاب برپا ہوچکا ہے۔’’مومنوں‘‘ کو دیکھ لیں،پرسوں لاہور میں تیز بارش آئی،سروسز ہسپتال پانی میں ڈوب گیا،آپریشن تھیٹر پانی سے بھر گیا،ڈاکٹر اس وقت آپریشن میں مصروف تھے،بجلی چلی گئی،جنریٹر کا ڈیزل ختم ہوگیا۔
ڈاکٹرز موبائل کی لائٹس جلا کر آپریشن کرتے رہے جبکہ اس دوران ہسپتال کے افسروں کا جنریٹر چل رہا تھاجبکہ اس دوران لاہور میں ہی وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ محسن نقوی ایک تقریب میں ایک دوسرے کی تعریفوں پر تالیاں بجا رہے تھے۔آج ہی فیصل آباد میں شہباز شریف فرما رہے تھے اگر عوام نےہمیں ایک اور موقع دیا تو ہم ملک کو بلندیوں پر لے جائیں گے۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا واقعہ ہی دیکھ لیں۔بات سیدھی سادھی ہے،جہاں نیتیں خراب ہوں،ایمانداری صر ف نام کی رہ جائے، تاریخ گواہ ہے وہ معاشرے ختم ہوجاتے ہیں،چاہے وہ کافروں کے ہوں یا مومنوں کے۔