
واشنگٹن(اے ون نیوز) پاکستان نے سی آئی اے کی دی گئی معلومات کی بنیاد پر داعش کےکمانڈر کو گرفتار کرلیا جس کی گرفتاری اور پاکستان کے ساتھ امریکی خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹرکے رابطوں کی اندرونی کہانی بھی سامنے آ گئی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق داعش کا کمانڈر 2021 میں افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کے موقع پر کی گئی بھیانک دہشتگردی کی سازش میں ملوث تھا جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تعاون کرنے پر پاکستان کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 2021 میں کابل ائیرپورٹ کے ایبی گیٹ پر دہشتگردی کے اس واقعے میں 13 امریکی فوجی اور 170 افغان شہری مارے گئے تھے، محمد شریف اللہ داعش کے ان لیڈروں میں سے ایک ہے جس نے مبینہ طورپر اس دہشتگردی کی سازش کی تھی، وہ دہشتگرد جعفر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسے پاکستانی خفیہ ایجنسی نے گرفتار کیا تھا اور اب اسے پاکستان سے امریکا لایا جارہا ہے ۔امریکی اہلکار نے خبرایجنسی کو بتایا کہ 26 اگست کو دہشتگردی کی اس واردات کا شریف اللہ ہی ماسٹرمائنڈ ہے۔
امریکی حکام کے مطابق، سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف کو جنوری میں کانگریس نے توثیق دی تو ٹرمپ نے انہیں ایبی گیٹ حملے کے ذمہ دار دہشتگردو کو گرفتار کرنے کو ترجیح دینے کی ہدایت دی۔اپنے عہدے کے ابتدائی دنوں میں، ریٹکلف نے سی آئی اے کے انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کو بتایا کہ یہ ایجنسی کے لیے ایک اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
ایک امریکی اہلکار کے مطابق، سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے اپنے عہدے کے دوسرے دن ہی پاکستانی ہم منصب لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک سے اپنی پہلی ٹیلیفون کال کے دوران اس معاملے کو اٹھایا۔ ریٹکلف نے یہ پیغام فروری کے وسط میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے موقع پر پاکستانی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے ملاقات کے دوران بھی دہرایا۔تاہم واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان نے اشاعت سے قبل کوئی موقف فراہم نہیں کیا۔
سی آئی اے کچھ عرصے سے شریف اللہ کی نگرانی کر رہی تھی، لیکن حالیہ دنوں میں اسے اس کے ٹھکانے کے بارے میں مخصوص خفیہ معلومات حاصل ہوئیں۔ امریکی حکام کے مطابق، سی آئی اے نے یہ معلومات پاکستانی خفیہ ایجنسی کو فراہم کی اور پاک فوج کے جوانوں نے پاکستان-افغانستان سرحد کے قریب اسے ایک آپریشن کے دوران گرفتار کر لیا۔
دس دن قبل جب امریکہ کو شریف اللہ کی گرفتاری کی اطلاع ملی، تو ریٹکلف اور ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے سی آئی اے کے ہیڈکوارٹر لینگلی سے پاکستانی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے ساتھ ٹیلیفونک رابطہ کیا ۔اس کے بعد، سی آئی اے، محکمہ انصاف اور ایف بی آئی نے اس کی حوالگی پر مل کر کام کیا، جس میں ریٹکلف، پٹیل اور اٹارنی جنرل پم بانڈی ذاتی طور پر شامل رہے ۔