اہم خبریںبلوچستانپاکستانتازہ ترین

پہلے زوردار دھماکہ ہوا،ہم بچوں سمیت ٹرین میں لیٹ گئے،جعفر ایکسپریس کے مسافروں نےآنکھوں دیکھا حال بتا دیا

کوئٹہ(اے ون نیوز)کلیئرنس آپریشن میں 190 مسافروں کو بحفاظت بازیاب کرالیا گیا جبکہ 30 دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے۔

جعفر ایکسپریس کے مسافرمشتاق محمد جو تین نمبر بوگی میں موجود تھے نے مچھ سٹیشن پہنچ کر ان تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس حملے کا آغاز ایک بہت بڑے دھماکےسے ہوا۔

اسی ٹرین کی بوگی نمبر سات میں موجود اسحاق نور اپنی اپلیہ اور دو بچوں کے ہمراہ کوئٹہ سے راولپنڈی جا رہے تھے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ٹرین کی کھڑکیاں اور دروازے ہل کر رہ گئے اور میرا ایک بچہ جو کہ میرے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا نیچے گر گیا۔

مشتاق کے مطابق اس کے بعد فائرنگ شرو ع ہو گئی۔ فائرنگ ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ اس فائرنگ کے دوران ایسا منظر تھا جو کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔

ادھر فائرنگ اور گولیاں کوچز پر لگتے دیکھ کر اسحاق نور نے اپنے ایک بچے کو جبکہ ان کی اہلیہ نے ان کے دوسرے بچے کو اپنے نیچے کر لیا تاکہ اگر گولی لگے تو ہمیں لگے اور بچے بچ جائیں۔

اسحاق کے مطابق ‘فائرنگ کا سلسلہ شاید پچاس منٹ تک رہا ہو گا۔ اس دوران ہم لوگ سانس بھی نہیں لے رہے تھے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا۔’

مشتاق محمد بتاتے ہیں کہ ‘پھر آہستہ آہستہ فائرنگ رکی اور اس کے بعد مسلح افراد بوگیوں میں داخل ہوئےان کی بوگی میں مسلح لوگ داخل ہوئے اور انھوں نے کچھ لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھنا شروع کیے اور ان ہی میں سے کچھ لوگوں کو سائیڈ پر کرتے گئے۔

ہماری بوگیوں کے دروازوں پر تین تین لوگ پہرے دے رہے تھے۔ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ سویلین، خواتین، بوڑھوں اور بلوچوں کو کچھ نہیں کہیں گے۔’

ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ آپس میں بلوچی میں بات کر رہے تھے اور ان کا لیڈر انھیں بار بار کہہ رہا تھا کہ سکیورٹی اہلکاروں پر خصوصی نظر رکھو، یہ ہاتھ سے نکلنے نہیں چاہییں۔’

اسحاق نور بتاتے ہیں کہ ‘ہماری بوگی میں سے انھوں نے کم از کم میرا خیال ہے کہ گیارہ لوگوں کو نیچے اتارا اور کہا کہ یہ سکیورٹی اہلکار ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس موقع پر ایک شخص نے کچھ مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو اس کو تشدد کر کے نیچے اتارا گیا اور پھر گولیاں چلنے کی آواز آئی۔’اس کے بعد بوگی میں موجود تمام لوگ ان کی ہدایات پر عمل کرتے رہے۔’

اسحاق نور کا کہنا تھا کہ شام کے وقت انھوں نے کہا کہ ہم بلوچوں، عورتوں، بچوں اور بڑے عمر کے لوگوں کو رہا کررہے ہیں۔ وہ مجھے نہیں چھوڑ رہے تھے مگر جب میں نے ان کو بتایا کہ میں تربت کا رہائشی ہوں اور میرے ساتھ بچے اور خاتون ہیں تو انھوں نے مجھے بھی جانے دیا۔

کوئٹہ سے لاہور اپنے عزیزوں کے ہاں جانے کے لیے منگل کی صبح محمد اشرف جعفر ایکسپریس میں سوار ہوئے تھے۔

یہ وہی محمد اشرف ہیں جن کے بیٹے منگل کی سہ پہر کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر اپنے والد کی خیریت کے حوالے سے معلومات ڈھونڈنے پہنچے تھے اور اس دوران ہمارے نامہ نگار محمد کاظم سے بات کی تھی،محمد اشرف نے پہلے مچھ سے فون پر اور پھر کوئٹہ ریلوے سٹیشن میں براہ راست بی بی سی سے بات کی اور حملے کی جگہ سے پنیر سٹیشن تک کے سفر کے بارے میں بتایا۔

محمد اشرف کے مطابق شدت پسندوں کی جانب سے بوڑھوں، عام شہریوں، خواتین اور بچوں کو جانے دیا گیا اور پھر ان کا پنیر سٹیشن کا طویل پیدل سفر شام کے وقت شروع ہوا۔انھوں نے کہا کہ پنیر سٹیشن تک ہم تین سے ساڑھے تین گھنٹے میں بہت مشکل سے پہنچے، کیونکہ تھکاوٹ بھی تھی اور ساتھ جوان بچیاں، خواتین اور بزرگ بھی تھے اور بچے بھی تھے۔

’زیادہ تر لوگ سامان چھوڑ کر آئے تھے، جبکہ کچھ سامان ساتھ لیے آ رہے تھے، جس پر میں نے انھیں کہا کہ یہاں جان بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ بہرحال کچھ ضعیف آدمی تھے انھیں ہم لوگوں نے کندھوں پر اٹھایا اور کرتے کرتے یہاں تک پہنچے۔انھوں نے بتایا کہ ’مسافروں میں بہت زیادہ خوف تھا، قیامت کا منظر تھا۔

محمد اشرف کہتے ہیں کہ میرے اندازے کے مطابق وہ (شدت پسند) دو ڈھائی سو کے قریب افراد کو اپنے ساتھ لے گئے تھے اور ان کی تعداد بھی سو سوا سو کے قریب تھی۔

اسی طرح بہاولپور جانے والے مسافر بشیر اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مسلح افراد آئے اور انھوں نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ نیچے اتریں۔ انھوں نے نہ مجھے روکا اور نہ میرے بچوں کو۔

مسلح افراد نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں۔ اس کے بعد ہم لوگ مشکل راستوں سے ہوتے ہوئے پنیر ریلوے اسٹیشن پہنچے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button