اسلام آباد(اے ون نیوز)سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس پر جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا تفصیلی نوٹ جاری کر دیا۔
تفصیلی نوٹ 25 صفحات پر مشتمل ہے، نوٹ میں کہا گیا کہ ازخودنوٹس سے سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو عدالت پر اعتراض اٹھانے کی دعوت دی گئی۔
تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کے دوران بھی عدالت میں اعتراضات داخل کرائے گئے، اس قسم کے اعتراضات سے عوام کے عدالت پر اعتماد پر اثر پڑتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے نوٹ میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کی درخواست پر کارروائی شروع کرنا قبل ازوقت تھی،سیاستدانوں کو اپنے معاملات متعلقہ فورم پر حل کرناچاہئیں،سیاسی معاملات میں عدالت کو نہیں ملوث کرناچاہیے۔
یہ بھی پڑھیں….سکیورٹی فورسز کو بڑی کامیابی،انتہائی مطلوب دہشتگرد گلزار امام عرف شمبے گرفتار
نوٹ میں کہا گیا کہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کا طرز عمل اور ان کی حکمت عملی سیاسی بحران جنم دے گی،معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے،سیاسی رسہ کشی سے عوامی مفادات اور معاشی حالت متاثر ہورہی ہے،عوام کو لمبے عرصے سے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
نوٹ میں کہا گیا کہ عدالتوں کی طرف سے غیر جمہوری قوتوں کی توثیق سے ملک اورعوام کوناقابل تلافی نقصان ہوا،سیاسی ماحول اتنا زہریلا ہوچکا ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کے لیے راضی نہیں ہوں گی، سیاسی حکمت عملی کے طور پر آئینی کردار اداکرنے کے بجائے استعفے دیئے گئے، نوٹ میں کہاگیا کہ سیاسی حکمت عملی کے طور پر صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سوالیہ نشان ہے۔
کیا صوبائی اسمبلیوں کی اس طرح تحلیل آئینی جمہوریت کے مطابق ہے،نوٹ میں استفسار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کی اس طرح تحلیل آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ درخواستیں تین وجوہات کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہیں، تفصیلی نوٹ میں کہاگیا کہ سیاسی تنازعات عدلیہ میں لانے سے گریز کیا جائے،سیاسی تنازعات عدالت میں لانے سے عدالت ہار جاتی ہے۔
عدلیہ سمیت تمام ادارے اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر آئینی ذمہ داری پوری کریں، تفصیلی نوٹ میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا اپنے نوٹ میں کہنا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختو نخواالیکشن کا معاملہ خالصتاسیاسی نوعیت کا ہے،قلیل مدت میں سپریم کورٹ کو تیسری مرتبہ سیاسی معاملہ میں گھسیٹا جا رہا ہے، ملک میں اس وقت نہ رکنے والا سیاسی ہیجان ہے،سپریم کورٹ غیر معمولی طور سیاسی تقسیم کے اس عمل کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔
نوٹ میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں پہلی مرتبہ معاملہ اس وقت آیا جب عدم اعتماد کی تحریک چل رہی تھی، جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے 12ججز سے مشاورت کے بعد عدم اعتماد پر ازخودنوٹس لیا،پانچ ججز نے فیصلہ دیا کہ رولنگ پر ووٹنگ کرنے کی بجائے اسمبلی تحلیل کرنا غیر آئینی عمل تھا۔
نوٹس میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی ووٹنگ کے عمل سے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا،سیاسی بحران اس وقت شدید ہو گیا جب ایوان کا اعتماد کھونے کے بعد استعفے دیے گئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جما ل مندوخیل کا تفصیلی فیصلہ پڑھا، جما ل مندوخیل اورجسٹس منصور علی شاہ کی 4/3کی رائے سے متفق ہوں،آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے دور رس نتائج مرتب ہوئے،پی ٹی آئی کے اسمبلی سے استعفوں کی وجہ سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔
دونوں صوبوں میں انتخابات نہ کرانے پر متعلقہ ہائیکورٹس سے رجوع کیا گیا،ہائی کورٹس میں کیس زیرالتواء تھا اس کے باوجود از خود نوٹس لیا گیا، ہائیکورٹس کی صلاحیت و اختیار پر شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی، عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر از خود نوٹس لینا بھی غلط تھا،سپریم کورٹ اگر فل کورٹ تشکیل دیتی تو اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا،عوام کے اعتماد کو قائم رکھنے کیلئے فل کورٹ لازمی تھا،میں نے اپنے آپ کو کیس سے الگ کیا نہ ہی بینچ سے،انہوں نے کہاکہ میر ے الگ ہونے کی کوئی وجوہات تھیں۔