لاہور(اے ون نیوز)سینئراینکرپرسن منصور علی خان نے پاکستان مسلم لیگ( ن) کے گزشتہ روز مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے میں عوام کی تعداد کے حوالے سے اعدادوشمار شیئر کردیئے اورکہا ہے کہ میرے پاس جو نمبرز آئے ہیں وہ بالکل ویسے ہی آپ کے سامنے رکھوں گا، وہ چاہے کسی کو پسند ہوں یا نہیں ہوں،کسی کو برے لگیں مجھے کوئی فکر نہیں۔
منصور علی خان نے کہاکہ میرے اطلاع کے مطابق جو دو تین ذرائع ہیں ان کا کہنا ہے کہ 75ہزار سے ایک لاکھ تک لوگوں نے مینار پاکستان جلسے میں شرکت کی،جلسہ گا ہ کے اندر یا باہر کا کراوڈ بھی ڈال لیں تو اتنی ہی تعداد تھی،میں تو انہیں فل مارکس دوں گا کہ آپ اتنا ہجوم بھی لے آئے۔
نجی ٹی وی کی خصوصی ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دبئی سے میاں نوازشریف کی پرواز اڑی،اسلام آباد میں پوری نادرا ہی بائیو میٹرک کروانے کیلئے ان کے پاس آگئی،جو انصاف کے نظام کا مذاق ہے،جبکہ انہیں خود بائیو میٹرک کیلئے عدالت جانا چاہئے تھا،جب انہوں نے لاہور لینڈ کیا کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے،لاہور لینڈنگ سے قبل پوری انتظامیہ اس جلسے کو کامیاب بنانے کیلئے مکمل متحرک تھی۔
ان کاکہناتھاکہ نگران پنجاب حکومت نے قائد ن لیگ کو پوری طرح پروٹوکول بھی دیا اور سپورٹ بھی کیا،پولیس کے افسران بھی میاں نوازشریف کولاہور ایئرپورٹ پر پہنچے ہوئے تھے،جبکہ تکنیکی طور پر قائد ن لیگ کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے،سوائے اس کے وہ سابق وزیراعظم ہیں ،وہ اب بھی مجرم ہیں،یہ بڑا عجیب ہے کہ وہاں ایک پولیس افسر ان کے استقبال کیلئے جاتا ہے اور ساتھ ساتھ سیلوٹ بھی مارتا ہے،عون چودھری صاحب بھی میاں صاحب کے استقبال کیلئے وہاں موجود تھے،عون چودھری استحکام پاکستان پارٹی کے ترجمان ہیں،لیکن اس سے قبل عون چودھری حمزہ کو بطور وزیراعلیٰ منتخب کرانے کروانا تھا اس میں عون چودھری نے بڑا متحرک کردار ادا کیا تھا بعد میں انہیں اس کا ایوارڈ بھی ملا ، انہیں شہبازشریف کی کابینہ میں شامل بھی کرلیا گیا تھا،میں اس وقت بھی کہتا تھا کہ استحکام پاکستان پارٹی ن لیگ کی بی ٹیم کے طور پر کھیلے گی جبکہ باقی شغل میلے یا سیاسی فوائد کیلئے تاثر یہی دینگے کہ ہم ان سے الگ ہیں۔
اینکرپرسن نے کہاکہ دلچسپ پوائنٹ اس وقت شروع ہوا جب نواز شریف نے کہاکہ مہنگائی کتنی ہوگئی ہے،لوگوں کو بجلی کا بل دینا مشکل ہوگیا ہے اور لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں،آج آٹا کتنے کا ہے چینی کتنے کی ہے،میاں صاحب جب بار بار یہ کہہ رہے تھے تو سامنے شہبازشریف صاحب بیٹھے تھے،تو 16ماہ کی حکومت ان کے اپنے بھائی شہبازشریف کی تھی،لیکن نواز شریف سارے کا سارا بوجھ عمران خان پر ڈالنے کی کوشش کررہے تھے،تقریر میں انہوں نے صرف ایک بار عمران خان کا نام لیا ہے،لیکن پورا کا پورا بوجھ چیئرمین پی ٹی آئی پر ہی ڈالا کہ مجھے کیوں نکالا گیا،میں کتنا کچھ ٹھیک کررہا تھا،یہ سب کچھ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی،لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ تھی میاں صاحب چاہتے ہیں کہ پوری قوم 2018سے 2022تک 4سال کا قصور وار عمران خان کو ٹھہرائیں اور بعد میں جو کچھ ہوا ہے اسے بھول جائیں اور سیدھی اپنی یادداشت 2017کے اندر لے جائیں،2017میں چیزوں کے ریٹس فلاں فلاں تھے،اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے 2017کے ریٹس ہی یاد رکھنے ہیں تو 2012کے کیوں نہ یاد رکھے جائیں،یا2007کے کیوں نہ یاد رکھے جائیں جب ریٹس اس سے بھی کم تھے، اینکر پرسن کا کہنا تھا کہ یہ سیاست ہوتی ہے آپ نے ایسا کرنا تو ہوتا ہی ہے،آپ اپنے ووٹر کو قائل کرنے کیلئے بتاتے ہیں کہ میرا دور بڑا سنہری تھا،اب میں آ گیا ہوں ملک بچانے کیلئے۔
منصور علی خان نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ آگے کیا ہوگا لیکن جو بھی آئے گا اس کیلئے آگے کا راستہ بہت مشکل ہے، کل کے جلسے میں میاں صاحب سے غلطی ہوئی انہوں نے پی ٹی آئی کی خواتین کارکن کو نشانہ بنایا، میاں صاحب کو اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ان کاکہناتھا کہ جہاں تک نوازشریف کی تقریر کا عمران خان کی تقریر سے موازنہ کا تعلق ہے ان کاکہناتھا کہ عمران خان کے پاس پبلک سپیکنگ کا زیادہ تجربہ ہے ،زیادہ تگڑی تقریر کرتے ہیں،لوگوں کو اپنی تقریر میں محو رکھنا عمران خان کی بڑی طاقت ہے،یہ تب آتا ہے جب لیڈر خطاب کرتا ہے۔