اسلام آباد(اے ون نیوز)سپریم کورٹ میں 2 صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں۔لیکشن کا معاملہ لٹکانے کی اجازت نہیں دینگے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہونگے، وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں چیزیں واضح نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے از خود نوٹس میں تین سوالات اٹھائے ہیں، پہلا سوال اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ دوسرا سوال انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی ذمہ داری کیا ہے؟عدالت نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہمارے سامنے ہایئکورٹ کا 10 فروری کا آرڈر اور بہت سے فیکٹرز تھے، ان فیکٹرز کی بنیاد پر از خود نوٹس لیا۔
یہ بھی پڑھیں….سعودی عرب میں پہلا روزہ اور عید کب ہوگی؟اعلان ہو گیا
ہائیکورٹ میں لمبی کاروائی چل رہی ہے، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ سوال دونوں اسیمبلیوں کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کئے ہیں۔ 20فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی۔جو دو درخواستیں ہیں وہ اب آوٹ ڈیڈڈ ہوگئی ہیں، اس پر وضاحت کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں۔انتحابات کا ایشو پر وضاحت طلب ہے، ہم اردارہ رکھتے ہیں سب کو سنیں۔ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا تاکہ یہ کیس چلا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں….ترکیہ میں زلزلے کے 17 روز بعد ملبے سے 8 بھیڑیں زندہ نکال لی گئیں…ویڈیو دیکھیں
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، یہ ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر درخواست ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا ہے جو کہ فریق نہیں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، آڈیو میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184/3 کا نہیں بنتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کرینگی۔ جسٹس جمال مندوخیل کو سوموٹو پرکچھ تحفظات ہیں، ان کے تحفظات کو نوٹ کرلیا گیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا ہے کہ جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں کو سننا چاہیے۔یہ ایک اہم ایشو ہے ،اس کا مقصد ٹرانسپرنسی اور عدالتوں پر اعتماد کی بات ہے۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا ہے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ لمبی سماعت نہیں کرسکتے۔ہمارے سامنے یہ تجویز آئی ہے کہ ہم کل بھی سماعت کریں.سماعت میں اٹارنی جنرل نے وقت دینے کے لیے استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت اگلے ہفتے کریں گے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ صدر نے 20 فروری کو 9 اپریل کو انتخابات کرانے کی ہدایت کی۔ہائیکورٹس نے الیکشن تاریخ کے لیے گورنرز سے ڈسکس کرنے کی ہدایت کی۔گورنز نے اس آرڈر پر تحفظات کیا اور انٹراکورٹ اپیل دائر کی گئی ،انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی تاریخ 27 فروری ہے۔پشاور ہائیکورت میں ایسے ہی کیس کی سماعت 28 فروری کو ہے،انتخابات کی تاریخ کا معاملہ ابھی تک سب جوڈس ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین کے مطابق الیکشن اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں کیے جانے ہیں۔از خود نوٹس میں کچھ سوالات الیکشن کمیشن ایکٹ 27 اور 28 سے متعلق اٹھائے گئے۔
اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرلز کو عدالتی معاونت کے لیے نوٹسز جاری کردیے گئے۔الیکشن کمیشن، وفاقی، پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومت کو نوٹسزجاری کیے گئے۔سپریم کور ٹ نے صدر، چاروں صوبوں کے گورنرز کو بھی نوٹسز جاری کردیئے۔
گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے بینچ تشکیل دیا تھا، چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔ بنچ میں چیف جسٹس عمر عطابندیال ، جسٹس سیدمنصورعلی شاہ، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
ان کے علاوہ جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی بھی بینچ کاحصہ ہیں۔
ازخود نوٹس رجسٹرار کی جانب سے موصول ہونے والے نوٹ پر لیا گیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے علم میں لایا گیا 2 صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے۔