نوابشاہ(اے ون نیوز)ہزارہ ایکسپریس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 37 ہو چکی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حادثے کے عینی شاہد راشد علی بتاتے ہیں کہ حادثے سے قبل ان کے بچے اور بیوی آرام کر رہے تھے کہ اچانک بوگی پٹڑی سے نیچے اتر گئی اور الٹ گئی۔
چند لمحوں تک تو ہوش ہی نہیں آیا۔ جب ہوش آیا تو مجھے اپنی بیوی، بچوں کا خیال آیا اور اپنے سارے زخم بھول گیا۔ اٹھ کر دیکھا تو وہاں میرے بیوی بچے میرے سامنے نہیں تھے۔
انھوں نے اپنے اہل خانہ کی تلاش شروع کر دی جو خوش قسمتی سے قریب ہی ٹوٹی ہوئی بوگی کی ایک سیٹ تلے دبے ہوئے تھے۔
بیگم اور دو بچے ساتھ ہی تھے۔ وہ چِلا رہے تھے۔ میں نے ان کو حوصلہ دیا اور ان کو نکالا۔جیکب آباد کے رہائشی اسلم بھی اسی ٹرین پر اپنے بیٹے کے ہمراہ سوار تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم سوئے ہوئے تھے کہ یکدم بوگی نیچے اتر گئی اور ایک قیامت برپا ہوگئی۔اس حادثے میں انھیں کچھ چوٹیں آئیں مگر بیٹا میرے اوپر گِرنے کی وجہ سے محفوظ رہا۔
ٹرین میں سوار نصیر احمد کی منزل راولپنڈی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ٹرین کی بوگی پٹڑی سے اترنے پر میں کھڑکی سے باہر گِر گیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس حادثے میں زندہ بچ گئے۔
مگر انھیں گرنے سے کچھ چوٹیں ضرور آئیں اور وہ دور تک لڑکھڑاتے ہوئے چلتے رہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کئی خواتین اور بچے بھی زمین پر گرے ہوئے تھے۔ ’وہ چیخ رہے تھے، چلا رہے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔
اس موقع پر قریب ہی نہر تھی مگر نہر کا پانی گندا تھا۔ میں نے اس نہر میں سے اپنے ہاتھوں میں پانی بھرا اور جو لوگ بے ہوش تھے، ان کے منہ پر ڈالا تاکہ یہ ہوش میں آجائیں۔
جیکب آباد کے رہائشی عمیر احمد اس حادثے میں زخمی ہونے کے بعد نواب شاہ کے ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ حادثے کے بعد میں اٹھنے کے قابل نہیں تھا۔ میری ٹانگ زخمی تھی جبکہ سر پر بھی چوٹیں آئی تھیں مگرمیرے ساتھ میری اہلیہ انتہائی زخمی پڑی تھی۔
وہ مجھے مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ میں زور لگا کر اٹھا مگر اس کو باہر نہیں نکال سکا۔ان کا کہنا ہے کہ میرے جسم میں طاقت نہیں تھی۔ میری اہلیہ کا خون بہہ رہا تھا۔ مجھے اپنی بے بسی پر افسوس ہو رہا تھا۔
اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا آپ پیچھے ہٹیں ہم کچھ کرتے ہیں۔وہاں موجود تین نوجوانوں نے ان کی اہلیہ کو باہر نکالا اور دونوں کو پانی دیا۔ وہ انھیں گاڑی میں بٹھا کر ہسپتال بھی لے گئے۔