
اسلام آباد(اے ون نیوز) سپریم کورٹ نے زیادتی کے مقدمہ کو زنا بالرضا میں تبدیل کر دیا اور ملزم کی 20 سال کی سزا ختم کر کے 5 سال قید بامشقت کر دی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد خان نے 6 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا، جسٹس صلاح الدین پنور نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
سپریم کورٹ نے ملزم پر جرمانہ 5 لاکھ سے کم کر کے 10 ہزار روپے کر دیا، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مجرم مزید 2 ماہ تک قید رہے گا، ملزم کیخلاف کیس ریپ کا نہیں بلکہ رضامندی سے زنا کا بنتا ہے، رضامندی سے زنا پر مدعیہ بھی سزا کی حقدار ہے۔
فیصلہ کے مطابق مدعی مقدمہ کا چالان ہوا نہ ہی ٹرائل کورٹ میں اسے صفائی کا موقع مل سکا، سپریم کورٹ میں اپیل کی سطح پر شنوائی کے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی، ملزم کو زیادتی کے بڑے جرم کی جگہ چھوٹے جرم یعنی زنا بالرضا میں سزا دی جا سکتی ہے۔
فیصلہ میں درج ہے کہ ایف آئی آر کے مطابق خاتون صبح 5:30 بجے جنگل میں حاجت کیلئے گئی تھی، مدعیہ کے مطابق گھات لگائے بیٹھے ملزم نے پستول کے زور پر ذیادتی کا نشانہ بنایا، ایف آئی آر زیادتی کے وقوعہ کے تقریباً 7 ماہ بعد درج کی گئی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ مدعیہ مخصوص وقت پر جنگل آئے گی، یہ ملزم کو کیسے پتہ تھا اس پر استغاثہ خاموش ہے، مدعیہ نے وقوعے کے وقت کوئی مزاحمت نہیں کی، میڈیکل رپورٹ میں تشدد یا زخموں کے نشانات موجود نہیں، متاثرہ خاتون کے کپڑے بطور ثبوت پیش نہیں کیے گئے، نہ یہ ثابت ہوا کہ کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔
فیصلہ کے مطابق واقعہ رہائشی علاقے کے قریب پیش آیا مگر مدعیہ نے شور کیا نہ کسی کو مدد کے لیے بلایا، وقوعہ کے سات ماہ تک خاتون نے کوئی کارروائی کی نہ اپنے اہلخانہ سے تذکرہ کیا۔
سپریم کورٹ نے ڈی این اے رپورٹ پر حتمی فیصلہ دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ڈی این اے کی صداقت کا معاملہ کسی اور کیس میں طے ہوگا، ڈی این اے ٹیسٹ سیمپل لئے جانے کے ڈیڑھ سال بعد کیا گیا، میڈیکل ریسرچ پر مبنی جریدے کے مطابق ڈی این اے سیمپل کا درست نتیجہ 2ہفتے کے اندر ہی آ سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جنسی تعلق قائم ہونا مدعیہ کے بیان اور میڈیکل شواہد سے ثابت ہے، شواہد سے جنسی تعلق تو ثابت ہوتا لیکن زبردستی کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔




