
تل ابیب(اے ون نیوز)ایران نے ایک بار پھر اسرائیل کے جنوبی شہر بیرشیبہ پر بیلسٹک میزائلوں کی بارش کردی، جس سے علاقے میں شدید مالی نقصان ہوا، کئی گاڑیاں جل گئیں، اور مائیکروسافٹ آفس کے قریب بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہ حملہ جمعے کی صبح کیا گیا۔ ایرانی میزائل ایک رہائشی علاقے میں گرا جس کے باعث قریبی عمارتوں، گاڑیوں اور انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔ اگرچہ کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا، لیکن مالی نقصان کافی زیادہ ہے۔
ایمرجنسی سروس میگن ڈیوڈ ایڈم کا کہنا ہے کہ حملے کے فوری بعد فائرفائٹرز اور ریسکیو ٹیمیں متاثرہ مقام پر پہنچ گئیں اور آگ بجھانے کا کام شروع کردیا گیا۔
حملے کے ایک روز قبل بھی ایران کا ایک میزائل بیرشیبہ کے سوروکا ہسپتال سے ٹکرایا تھا جس میں 70 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اسرائیلی فوج نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے انٹرسیپٹر دفاعی نظام میں ممکنہ خرابی ایرانی میزائل روکنے میں ناکامی کا باعث بنی۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے بتایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو ہفتوں میں اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری تنازع میں براہ راست کارروائی کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے پریس بریفنگ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مستقبل قریب میں ایران سے مذاکرات کے امکانات کے حقائق کی بنیاد پر کارروائی کے حوالے سے دو ہفتوں کے اندر میں اپنا فیصلہ کروں گا۔
ترجمان نے بتایا کہ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ سفارتی حل نکالا جائے لیکن ان کی اولین ترجیح یقینی بنانا ہے کہ ایرانی جوہری ہتھیار نہ بنائے۔
انہوں نے کہا کہ معاہدہ تہران کو یورینیم افزودگی سے روکنے اور ایران کی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی صلاحیت کو روکنے کے لیے ہوگا۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ ہمیشہ سفارتی حل پر دلچسپی رکھتے ہیں، وہ پیس میکر ہیں، وہ امن کے ذریعے مضبوط صدر ہیں، اگر سفارت کاری کے لیے کوئی موقع ہے تو پھر صدراس موقعے کو حاصل کریں گے لیکن وہ طاقت کے استعمال سے بھی کبھی خوف زدہ نہیں ہوں گے۔
ایران پر حملے کے لیے کانگریس اجازت سے متعلق سوال پر لیویٹ نے کہا کہ واشنگٹن نے اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قریب نہیں رہا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ ٹرمپ کو اسرائیل کے حملوں کے بارے میں بریفنگ کیا جاتا ہے اور ایران کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اگر وہ جوہری ہتھیاروں پر جاری اپنا کام نہیں روکتے۔
گزشتہ روز ایران نے اسرائیل پر اب تک کا بڑا میزائل حملہ کردیا،جس کے نتیجےمیں بڑے پیمانے پرتباہی ہوئی ہے، میزائل حملوں میں 50 سے زائد صہیونی زخمی ہوگئے جبکہ اسرائیلی وزیر دفاع نے ایرانی سپریم لیڈر کو قتل کرنے کی دھمکی دی ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپوٹس کے مطابق ایران کی جانب سے اسرائیل پرمتعدد میزائل فائر کیےے۔ ان حملوں کے کے نتیجے میں اب تک 50 لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، زخمیوں میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایرانی میزائلوں نے چار مقامات کو نشانہ بنایا، جن میں اسٹاک ایکسچینج کی عمارت، سوروکا اسپتال بھی شامل ہیں۔
ایرانی میزائلوں نے وسطی اور جنوبی اسرائیل میں تباہی مچائی جبکہ اسرائیلی فورسز نے ایران میں ارک ہیوی واٹر ریکٹر کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نے کہا کہ اب بات ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے قتل پر ہی حل ہوگی اور اس جنگ کا ہمارا ہدف بھی یہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان حملوں کے پیچھے ایک ہی شخص کا ہاتھ اور حکم ہے اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ خامنہ ای ہے، اب جلد اُن کے خاتمے کیلیے اقدامات کیے جائیں گے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے سوروکا اسپتال کے اندر اپنا فوجی اڈہ قائم کیا ہوا تھا، جس کو انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
غیر ملکی خبرایجنسی کےمطابق ایرانی میزائل حملوں کے بعد تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس میں دھماکےکی آوازیں سنی گئیں اور متعدد عمارتیں تباہ ہوگئیں۔
عرب میڈیا رپورٹس کےمطابق ایران نے جنوبی اسرائیل کےشہر بیئرشیوا کو بھی نشانہ بنایا،ہولون میں میزائل حملے میں بھی درجنوں افراد زخمی ہوئے،موجودہ حملے کو حالیہ جنگ میں ایران کا اسرائیل پر سب سے بڑا حملہ قرار دیا جارہا ہے۔
قبل ازیں ایران نے آپریشن وعدہ صادق سوم کے تحت اسرائیل پر 11ویں بار میزائل اور ڈرون داغ دیے، جس میں پہلی بار سیجل میزائل کا استعمال کیا گیا۔
ایرانی میڈیا رپورٹ کے مطابق تہران کی جانب سے ایران کے شہر تل ابیب اور حیفہ پر جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ طاقتور میزائل سیجل فائر کیے گئے ہیں، جو انتہائی بلندی پر سفر کر کے پھر اپنے ہدف تک کامیابی کے ساتھ پہنچتے ہیں۔
ایران نے دعوی کیا ہے کہ اُس کی جانب سے فائر کیے گئے ایک درجن میزائلوں میں سے چند نے کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ ایران کی جانب سے میزائل فائر ہونے اور اسرائیلی حدود میں ڈرون و راکٹ داخل ہونے پر سائرن بھی بجائے گئے۔
ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے کیلیے اسرائیل کا دفاعی نظام ایکٹیو ہوا تاہم جدید میزائلوں کی وجہ سے یہ انہیں ہدف پر پہنچنے سے روکنے میں ناکام رہا۔
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے اسرائیل اور ایران کو جنگ بندی کے لئے ثالثی کی پیش کش کی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق روسی صدر نے یہ پیش کش اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ شروع ہونے کے فوری بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور ایران کے صدر مسعود پیزشکیان کو فون کرکے کی۔
امریکی تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ایک تجزیہ کار نکول گریجوسکی کے مطابق روسی صدر کی اس پیش کش کا مقصد اپنے اتحادی ملک کی حفاظت کرنا ہے کیونکہ روس ایران میں حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتا، خاص طور پر اگرایسی کسی تبدیلی کے نتیجے میں ایران میں کوئی مغرب نواز حکومت قائم ہو نے کا امکان ہو۔
واضح رہے کہ روس اور ایران نے جنوری میں فوجی تعلقات کو وسعت دینے کے ایک اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔
دریں اثنا روس ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت بھی کر چکا ہے ۔ ادھر یوکرین اور اس کے اتحادی ممالک ایران پر روس کو ڈرون اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی فراہمی کا الزام عائد کرتے ہیں۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ رواں ہفتے جمعے کو جنیوا میں ایرانی ہم منصب کے ساتھ جوہری پروگرام پر اہم مذاکرات کریں گے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق یورپی وزرائے خارجہ پہلے یورپی یونین کی اعلیٰ سفارتکار کایا کالاس سے جرمنی کے مستقل مشن پر ملاقات کریں گے جس کے بعد ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
جرمن سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات امریکا کی ہم آہنگی کے ساتھ ہو رہے ہیں، اور ان کا مقصد ایران سے سخت یقین دہانی حاصل کرنا ہے کہ وہ جوہری توانائی کا استعمال صرف پرامن سول مقاصد کے لیے کرے گا۔ مذاکرات کے بعد ماہرین کی سطح پر "اسٹرکچرڈ ڈائیلاگ” بھی ترتیب دیا گیا ہے۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ تہران کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو ختم کرنا چاہتا ہے جبکہ ایران مسلسل اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام عسکری نوعیت کا ہے۔
یورپی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایران تعاون پر آمادہ ہو جائے تو خطے میں کشیدگی کم کرنے کا موقع پیدا ہو سکتا ہے ورنہ حالات بگڑنے کا اندیشہ ہے۔