27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کو کیا اپنی موت کا پہلے سے علم تھا؟
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق مصنف ہیرالڈ منوز کی کتاب ’گیٹنگ اوے ود مرڈر‘ (Getting away with Murder) میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کے مطابق 2007 میں پاکستان واپسی سے قبل بے نظیر بھٹو امریکا کی ریاست کولوراڈو کے شہر ایسپن جا رہی تھیں۔
مصنف کے مطابق طیارے میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد اور ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
طیارے کی میزبان نے بینظیر کو تندور سے براہِ راست نکلی ہوئی تازہ تازہ کوکیز کھلانے کی پیش کش کی۔
بے نظیر بھٹو نے شائستگی سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ان دنوں میں اپنا وزن کم کر رہی ہوں، تاہم 1 سیکنڈ کے اندر ہی انہوں نے ایئر ہوسٹس کو واپس بلایا اور کہا کہ چلو کھلا دو، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ مجھے چند مہینوں میں مر ہی جانا ہے۔
شہادت کے روز عجیب واقعہ
راولپنڈی میں پیپلز سیکرٹریٹ کے سابق انچارج ابن رضوی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ لیاقت باغ کے جلسے کے روز بے نظیر بھٹو انتہائی خوش تھیں اور ان کے چہرے پر الگ ہی رونق تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا، بے نظیر بھٹو بار بار سامنے درخت کو دیکھتی تھیں، کبھی اپنی قریبی ساتھی ناہید خان سے کہتیں کہ سامنے درخت پر کون بیٹھا ہے، اسے اُتارو گر جائے گا۔
ابن رضوی نے بتایا کہ ناہید خان نے منع کر دیا کہ وہاں کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو نے مخدوم صاحب سے یہی بات کہی تو انہوں نے بھی کہا کہ کچھ نہیں ہے، جس کے بعد انہوں نے جلسے میں موجود کسی اور فرد سے بھی یہی کہا تو انہوں نے بھی کچھ نظر آنے کی تردید کر دی۔
ابنِ رضوی نے بتایا کہ اس موقع پر بے نظیر بھٹو شہید نے ناہید خان سے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ شاید میری نظر تھوڑی کمزور ہو گئی ہے، کراچی میں کل کسی اچھے آئی اسپیشلسٹ سے ٹائم لے لو، مجھے نظر چیک کروانی ہے، مگر وہ دن پھر نہیں آیا۔
راولپنڈی میں پیپلز سیکریٹریٹ کے سابق انچارج کے مطابق بعد میں ہمیں احساس ہوا کہ انسان کو موت سے قبل موت کا فرشتہ نظر آتا ہے۔