بلاگتازہ ترین

میرا رب ہنستاتو ضرور ہوگا….ستار چودھری

یہ اس دور کی بات ہے جب الیکٹرونک میڈیا نہیں ہوا کرتا تھا، فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام کے بارے میں تو کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا، پرنٹ میڈیا کا عروج تھا، سیاستدانوں سے لیکر اداکاروں تک سب اخبارات، رسائل اور میگزینوں کے محتاج ہوا کرتے تھے۔

اسی دور میں میڈیا نے اس شخص کا بائیکاٹ کر دیا، اتنی سخت پابندی، اسکی تصویر، اس کا نام کسی اخبار، میگزین میں شائع نہیں ہوتا تھا۔ یہ بائیکاٹ ایک دو سال نہیں بلکہ 15سال تک جاری رہا۔ جبکہ اس دور میں اس شخص کو میڈیا کی انتہائی ضرورت تھی، آپ یہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا اس کی آکسیجن تھی جس کے بغیر زندہ رہنا ناممکن تھا۔ یہ وہی دور تھا جب وہ شہرت کی بلندیوں پر چڑھ رہے تھے۔ اس کی شہرت، اس کی ترقی کے آگے بند باندھ دیا گیا۔

یہ سب کچھ کرنے والوں کی سوچ تھی کہ انکے اس اقدام سے وہ شخص اپنی موت آپ مر جائے گا، لوگ اس کا نام بھول جائینگے، اس کی شکل کسی کو یاد نہیں رہے گی، وہ ایک گمنام شخص بن جائے گا، لوگ اس کو آتے جاتے پہچان بھی نہیں پائیں گے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا وہ شخص ان سب پابندیوں کے باوجود ملک کا سب سے بڑا سٹار بنا، کروڑوں افراد کا پسندیدہ اداکار۔ وہ شخص تھا امیتابھ بچن۔ 1975 کی بات ہے جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھارت میں ایمرجنسی نافذ کی، اس دوران انہوں نے پریس پر بھی پابندیاں عائد کر دیں۔ فلمی میڈیا سمجھتا تھا ذرائع ابلاغ پر عائد پابندیوں کے ذمہ دار امیتابھ بچن بھی ہیں، اس لیے میڈیا نے ان کی خبروں، تصاویر اور انٹرویوز کا مکمل بائیکاٹ کر دیا۔

یہی وہ زمانہ تھا جب امیتابھ ہیرو کے طور پر ابھرنا شروع ہوئے تھے۔ امیتابھ جب بھی کسی فنکشن یا فلم کے پریمیئر میں شرکت کرتے تو فوٹوگرافر احتجاجاً اپنے کیمرے نیچے رکھ دیتے تھے بلکہ کبھی کبھار تو ان کا نام بھی فلم کے کریڈیٹس میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ اس دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جب امیتابھ کی فلم ’’دیوار‘‘ ریلیز ہوئی تو بہترین اداکار کی ٹرافی سنجیو کمار کو فلم ’’آندھی‘‘ کیلئے دے دی گئی، اپنے حریف اداکار کو یہ ٹرافی دینے کیلئے امیتابھ بچن کو سٹیج پر بلایا گیا۔ یہ حرکت جان بوجھ کر امیتابھ کو شرمندہ کرنے کیلئے کی گئی تھی۔ 15 سال بعد یہ پابندی اس وقت ختم ہوئی جب ’’قلی‘‘ فلم کی شوٹنگ کے دوران امیتابھ شدید زخمی ہو گئے، ایک میگزین نے انکے بارے میں ہمدردانہ کالم لکھ دیا۔ امیتابھ بہت حیران ہوئے، صحت یاب ہونے کے بعد شکریہ ادا کرنے کیلئے اس ایڈیٹر کے گھر چلے گئے۔ ایڈیٹر نے بتایا میڈیا انہیں ناکام کرنا چاہتا تھا لیکن ان کی موت نہیں چاہتا تھا۔

میڈیا کی پابندیوں سے یاد آیا پاکستان میں بھی آجکل ایک شخص پر سخت پابندیاں عائد ہیں، ان کا نام، انکی تصویر نہ کسی چینل پر چل سکتی ہے نہ ہی کسی اخبار میں شائع ہوسکتی ہے۔ ان کے بارے میں بھی وہ سوچا جا رہا ہے جو امیتابھ کے بارے سوچا گیا تھا کہ وہ اپنی موت آپ مر جائے گا، لوگ اس کا نام بھول جائیں گے، اس کی شکل کسی کو یاد نہیں رہے گی، وہ ایک گمنام شخص بن جائے گا، لوگ اس کو آتے جاتے پہچان نہیں پائیں گے۔ 15 سال کی پابندیوں کے باجود امیتابھ نے 12 فلم فیئر ایوارڈ حاصل کئے، بھارتی فلم انڈسٹری میں اب تک بہترین اداکار کے طور پر سب سے زیادہ ایوارڈ حاصل کرنے کا اعزاز امیتابھ کو ہی حاصل ہے، اس کے علاوہ کئی نیشنل، معاون اور دیگر ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ 1984 سے لیکر 1987 تک وہ بھارتی پارلیمان کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ اب تو آئی ٹی کا دور ہے، سوشل میڈیا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ اب تو کسی پر میڈیا پابندیاں لگانا انتہائی درجے کی نالائقی اور جاہلیت ہے۔ ہر شخص نے تو موبائل پکڑا ہوا ہے۔

ریڈھی والے سے لیکر جہاز والے تک۔ ملکی میڈیا کے ذریعے تو کسی کو بلیک آئوٹ کرایا جا سکتا ہے لیکن غیر ملکی میڈیا کا کیا جائے؟ نہ جانے ہم سوچتے کیوں نہیں؟ ہم اپنی صلاحیتیں کہاں صرف کر رہے ہیں؟ ہم انسانی فطرت سے آگاہ کیوں نہیں ہیں؟ یوں لگتا ہے ہم پتھر کے زمانے کے باسی ہیں۔ 70 کی دہائی میں امیتابھ 15 سال کی پابندیوں کے باوجود ملک کا سب سے بڑا سٹار بن گیا، اب تو 2023 ہے، عمران خان کو کیسے گم نام کر پائیں گے؟حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تو پوچھا، یا میرے رب آپکو بھی ہنسی آتی ہے؟میرے رب نے فرمایا۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) مجھے دو بار ہنسی آتی ہے۔

موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، کب؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا! ایک بار اس وقت جب میں کسی شخص کو نوازنا چاہتا ہوں تو ساری دنیا اس کی مخالفت پر اتر آتی ہے تو میری ہنسی نکل جاتی ہے۔ دوسری بار اس وقت جب میں کسی شخص سے کچھ چھیننا چاہتا ہوں تو ساری دنیا اسکی حمایت میں اتر آتی ہے تو میری ہنسی نکل جاتی ہے۔ میڈیا کا مکمل بلیک آئوٹ، 200 سے زائد کیسز، ہر پارٹی، ہر ادارے کی مخالفت کے باوجود کپتان شہرت کی بلندیوں پر دن بدن مسلسل آگے بڑھتے جا رہے ہیں، جب حکومت اور ادارے مزید کیس، مزید پابندیاں نافذ کرتے ہونگے میرا رب ہنستا تو ضرور ہو گا۔

نوٹ ،اے ون ٹی وی اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں03334049991پر ویٹس اپ کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button