عبد اللہ ابن زبیر کے بھائی مصعب بن زبیر کے حکم پر مختار ثقفی کو 687ء میں مسجد کوفہ میں قتل کر دیا گیا، یہ 15 رمضان 67ھ کا واقعہ ہے، جب سر کاٹ کر مصعب بن زبیر کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے فرمان جاری کیا، جشن منائو دشمن اسلام مارا گیا دربار میں بیٹھا ایک بوڑھا ہنس پڑا، مصعب نے دریافت کیا، کیوں ہنستا ہے بڈھے؟ بوڑھے نے کہا ماضی یاد آ گیا، حال سامنے ہے، مستقبل آدھا دکھائی دے رہا ہے۔
مصعب نے حکم دیا کہ تفصیل سےبتاؤ۔ بوڑھے نے بولنا شروع کیا، یہی دربار تھا، عبیداللہ ابن زیاد تخت پر بیٹھا تھا، حضرت امام حسینؓ ابن علیؓ کا سر لایا گیا، ابن زیاد نے کہا جشن مناؤ، دشمن اسلام مارا گیا۔ ہم نے جشن منایا۔ ایک بار پھر یہی دربار تھا، جس مختار ثقفی کا سر تیرے تخت کے نیچے پڑا ہے یہ اسی تخت پہ بیٹھا تھا، ابن زیاد کا سر کاٹ کر لایا گیا، مختار ثقفی نے فرمان جاری کیا جشن مناؤ، دشمن اسلام مارا گیا۔ ہم نے جشن منایا۔ آج وہی دربار ہے، تو تخت نشین ہے۔
مختار ثقفی کا سر لایا گیا ہے، تیرا حکم ہے جشن مناؤ، دشمن اسلام مارا گیا، ہم آج بھی جشن منائیں گے، کل بھی یہی دربار ہوگا، یہ تو نہیں جانتا کہ تخت پر کون بیٹھا ہوگا؟ لیکن اتنا پتہ ہے کہ سر تیرا ہوگا اور فرمان جاری کیا جائے گا، جشن مناؤ، دشمن اسلام مارا گیا اور ہم جشن منائیں گے۔بوڑھے کی پیشگوئی کے عین مطابق کوفہ کے دربار میں عبدالملک بن مروان کے سامنے مصعب بن زبیر کا سر پیش کیا گیا اور اس نے جشن منانے کا حکم دیا۔ کسی نے بوڑھے کی بات کا عبدالملک بن مروان کے سامنے ذکر کیا تو عبدالملک بن مروان نے فوراً دربار کی عمارت کو گرانے اور دربار کو کوفہ کے کسی اور علاقے میں تعمیر کرنے کا حکم دے دیا۔
کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، وقت بدل بدل کر آتا ہے، آج اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اپنے حقوق سے بے خبر، بھوک سے مرتے عوام نے صرف جشن ہی منایا ہے۔ ایوب گیا، قوم نے جشن منایا، یحییٰ گیا قوم نے جشن منایا۔ بھٹو سے شہری امیدیں وابستہ کیں، جب اسے پھانسی لگی قوم نے جشن منایا۔ ضیاءالحق کو نجات دہندہ سمجھا، جب ان کا طیارہ تباہ ہوا تو قوم نے جشن منایا۔ بے نظیر آئیں، جب انکی حکومت برطرف ہوئی قوم نے جشن منایا، نواز شریف آئے، مٹھایاں تقسیم کیں، جب وہ گئے قوم نے جشن منایا۔ زرادری گئے، گیلانی گئے، پرویز اشرف گئے قوم نے جشن منایا۔ عمران خان کے جانے پر خوشیاں منائی گئیں۔
اب پھر خوشیاں منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہم صرف مہرے تبدیل ہونے پر جشن مناتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں، بھنگڑے ڈالتے ہیں لیکن استحصالی نظام کو گرانے کے لئے کبھی نہیں سوچیں گے۔ تاریخ گواہ ہے ہمیشہ طاقتور اشرافیہ نے نظام کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ڈیزائن کیا ہے، وہی مشق پاکستان میں جاری ہے اس نظام میں غریب اور عام آدمی کے لئے کچھ نہیں ہے۔ کیا ہم سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ اگر رکھتے ہیں تو سوچتے کیوں نہیں؟ اندھی تقلید کوئی ہم سے سیکھے۔ ہمیں چوری اور کرپشن پر کوئی اعتراض نہیں بس چور اور کرپٹ ہماری مرضی کا ہونا چاہئے۔
حقائق یہی ہیں، کسی کو اچھے لگیں یا برے، ہم 24کروڑ عوام چند خاندانوں، چند افسروں کے غلام ہیں۔ ہم دن رات محنت کر کے، خون پسینہ ایک کر کے، ان کو اور انکے بچوں کو عیش کروا رہے ہیں۔ انکے بڑے بڑے محل، انکی بڑی بڑی گاڑیاں، انکی عیش و عشرت سب ہمارے ذمے ہے۔ ہمارے اپنے بچے بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں لیکن انکے بچوں کیلئے ہمیں دن رات محنت کرنا ہوگی۔ ہر آنیوالا قوم کو سنہری خواب دکھاتا ہے، عوام ان سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں، بعد میں معلوم ہوتا ہے موصوف نے وہ سنہری خواب تو صرف اپنے خاندان کیلئے بتائے تھے اور وہ پورے بھی ہوچکے ہیں۔
درجنوں ممالک میں انکی پھیلی ہوئیں جائیدادیں اس بات کا ثبوت ہیں۔ جب بھی کوئی اس نظام کو بدلنے کی بات کرے گا مارا جائے گا۔ کچھ مارے جا چکے، کچھ مارے جائینگے۔ ان کے مارے جانے پر بھی قوم کو جشن منانے کا حکم ملے گا۔ آپ نے بھیڑوں کا دیکھا ہی ہو گا، جب چرواہا چارہ پھینکتا ہے کیسے بھاگ کر آتی ہیں۔ بوڑھے کی بات کا ذکر سن کر عبدالملک بن مروان نے بھی اپنے سر کٹنے کے خوف سے صرف عمارت بدلی مگر نظام نہ بدلا۔
نظام ظلم و جبر پر مشتمل رہا، گردنیں کٹتی رہیں، عوام اپنے حقوق سے محروم رہے لیکن جشن مناتے رہے۔ قوم کو اب اٹھنا چاہیے، اپنے حقوق کیلئے، آنیوالی نسلوں کیلئے۔ اب فیصلہ کر لینا چاہیے، جشن مناتے رہنا ہے یا اپنا حق حاصل کرنا ہے۔ حضرت امام حسین ؓکا قول ہے ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے، اتنی زیادہ قربانی دینی پڑے گی۔