اہم خبریںبلاگتازہ ترین

انڈے دینے کا حکم…ستار چودھری

فرعون ہویا یزیدایسے کردار کب مرتے ہیں ،ہر دور میں زندہ رہتے ہیں،نام کوئی بھی ہو۔یہ فرعون کی ہی پالیسی تھی عوام کو کھانے کیلئے صرف اتنا ہی دو جس سے وہ زندہ رہ سکیں اور انکے تعمیراتی منصوبوں میں کام کرسکیں۔ہمارے ہاں یہی پالیسی رائج،اب سے نہیں ،برسوں سے۔فرعون بھی ایک نہیں،گلی گلی میں فرعون ہیں۔ظالم اگر ایک ہوتو انقلاب آتے ہیں،جہاں ہر طاقتور ظالم ہو وہاں انقلاب نہیں، جرائم بڑھتے ہیں۔

اہم بات،ہم اپنے فرعونوں کا انتخاب بھی خود کرتے ہیں۔جرمن کہاوت ہے’’بے وقوف بھیڑیں اپنا قصائی خود چنتی ہیں‘‘،اس کا اگر پاکستانی ترجمہ کیا جائے تو اس طرح بنتا ہے’’ زندہ لاشیں اپنا گدھ خود منتخب کرتی ہیں‘‘۔ہم سوچتے نہیں،اگر سوچیں تو بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ محفوظ، نرم و گرم بستر پر سونے والا کسی جھونپڑی میں آخر کیوں جھانکے؟ جہاں برہنہ بچے ایک دبیز سے کپڑے تلے بھیک میں ملی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا کھا کر سونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کسی کو اس بات سے کوئی سروکار کیوں ہو؟ کہ یہ لوگ سردیوں کی لمبی راتوں کے بعد دھوپ نکلنے کا صرف اس لیے انتظار کرتے ہیں کہ اپنے جسم میں سرایت کر جانے والی سردی کو قدرتی تپش سے دور کر سکیں۔خالی پیٹ رات کیسے بسر ہوتی ہے؟مناسب لباس، سر پر چھت، محفوظ دیواروں کی غیر موجودگی میں موسموں کی سختیوں سے کیسے نبرد آزما ہوا جاتا ہے؟ خواہشات اور حقائق کے مابین بڑھتی ہوئی مجبوریوں کی خلیج پر کیسے آنسو بہائے جاتے ہیں؟ان باتوں کا احساس بھلا کسی فرعون،نمرود یا یزید کو کیسے ہو سکتا ہے؟۔

صرف چالیس،پچاس فرعون،انکے دو،تین سو شہزادے، کوئی ایک ہزار حواری، کوئی دو،تین ہزار چیلے،چمچے،کڑچھے24کروڑ عوام کو غلام بنائے ہوئے ہیں ،اور غلاموںکی اکثریت بھی خوش ہے،اگر انہیں پورا دن لائن میں کھڑا ہوکر مفت آٹا سکیم میں سے ایک تھیلا مل جائے ۔کوئی بولتا ہے تو اسے اٹھالیا جاتا ہے،پہلےتو عدالت اور فوج کی توہین پر سزائیں تھیں،اب تو توہین پارلیمنٹ پر بھی سزا ملے گی۔ستمبر میں بجلی کے بل حملہ آور ہونے ہیں،گیس تو تین،چار سو فیصد مہنگی ہوچکی،ابھی مزید ہوگی،ساتھ24گھنٹوں میں صرف ایک ، دوگھنٹے کیلئے تین بار آتی ہے۔تین خاندانوں کا شوگر مافیا،اچانک قیمت80 سے150 پر پہنچ گئی،اربوں روپے چند دنوں میں کما لئے۔آٹے کا بھی یہی حال ہے۔

خوف ہے ہر طرف خوف،ساتھ بھوک ناچ رہی ہے۔ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا،حضور ! ملک عوام سے بنتے ہیں،جب عوام ذبح ہوگئے ملک ڈیفالٹ سے کیسے بچ گیا؟۔زندہ لاشوں کو ایک بار پھر اپنے گدھ منتخب کرنے کا وقت قریب آچکا۔پرانے شکاری پھر نئے جال لیکر آئینگے۔شعراکی محفل تھی،حبیب جالب تشریف لائے،کہنے لگے بری خبر لایا ہوں، پوچھا گیاتو بولے ’’ جس طرح حالات چل رہے، ملک نہیں چل سکے گا‘‘۔فیض احمد فیض بھی تشریف فرما تھے،کہنے لگے میرے پاس اس سے بھی بری خبر ہے،سب نے انکی طرف دیکھا،حیران ہوئے،پوچھا کیا،بولے ’’ جس طرح ملکی حالات چل رہے،اسی طرح چلتے رہیں گے ‘‘ ۔

ایک شخص نے مرغا پالا ،چند ماہ بعد اسے ذبح کرنا چاہا، مالک نے مرغے کو ذبح کرنے کا بہانا سوچا ، مرغے سے کہا کل سے تم نے اذان نہیں دینی ورنہ ذبح کردوں گا۔ مرغے نے کہا ٹھیک ہے آقا جو آپ کی مرضی، صبح جونہی مرغے کی اذان کا وقت ہوا تو مالک نے دیکھا کہ مرغے نے اذان تو نہیں دی لیکن حسبِ عادت اپنے پروں کو زور زور سے پھڑپھڑایا۔ مالک نے اگلا فرمان جاری کیا کہ کل سے تم نے پر بھی نہیں مارنے ورنہ ذبح کردوں گا۔

اگلے دن صبح اذان کے وقت مرغے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پر تو نہیں ہلائے لیکن عادت سے مجبوری کے تحت گردن کو لمبا کرکے اوپر اٹھایا۔مالک نے اگلا حکم دیا کہ کل سے گردن بھی نہیں ہلنی چاہیے، اگلے دن اذان کے وقت مرغا بالکل مرغی بن کر خاموش بیٹھا رہا۔مالک نے سوچا یہ تو بات نہیں بنی۔ اب کے بار مالک نے بھی ایک ایسی بات سوچی جو واقعی مرغے بے چارے کی بس کی بات نہیں تھی۔ مالک نے کہا کہ کل سے تم نے صبح انڈا دینا ہے ورنہ ذبح کردوں گا۔

اب مرغے کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی اور وہ بہت زار و قطار رویا۔ مالک نے پوچھا کیا بات ہے؟ موت کے ڈر سے رو رہے ہو؟ مرغاکہنے لگا،نہیں ! میں اس بات پر رو رہا ہوں کہ انڈے سے بہتر تھا اذان پر مرتا۔پاکستانی عوام بھی اس مرغے کی مانند ہے،75سال سے اپنے آقائوں کا حکم مان رہی ہے۔کبھی آہ تک نہیں کی،انکارکو تو گناہ کبیرہ سمجھتے رہے۔اب رو رہے ہیں،کیونکہ انڈے دینے کا حکم ملا ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button