اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6ججزکا خط کے تناظر میں ہونے والے سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔
اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا خط 26 مارچ کو موصول ہوا،ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے خط 25 مارچ کو لکھا گیا،چیف جسٹس نے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ اور دیگر ججز کیساتھ افطار پر ملاقات کی۔
ججز سے ملاقات چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رہائشگاہ پر ہوئی،تمام ججز کے تحفظات کو ڈھائی گھنٹے تک ایک، ایک کر کے سنا گیا،27مارچ کو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون سے ملاقات کی۔
چیف جسٹس نے صدرسپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کے سینئر ممبرز سے ملاقاتیں بھی کیں،27مارچ کو شام 4 بجے چیف جسٹس نے فل کورٹ میٹنگ طلب کی۔
اعلامیہ میں مزید کہا گیا فل کورٹ کی میٹنگ میں ہائیکورٹ کے ججز کے لکھے گئے خط پر تبادلہ خیال کیا گیا،اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا کہ چیف جسٹس کو وزیراعظم سے ملاقات کرنی چاہیے۔
وزیراعظم نے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے ہمراہ چیف جسٹس، سینئر جج اور رجسٹرار سے ملاقات کی، چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے معاملات اور عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔
کسی بھی صورتحال میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا جائیگا ،عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور مضبوط جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔
وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کے دوران انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز دی گئی،انکوائری کمیشن کسی نیک نام ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں قائم کرنے کی تجویز دی گئی۔
طے پایا وفاقی کابینہ کے اجلاس کے ذریعے انکوائری کمیشن کی تشکیل کی منظوری دی جائیگی،ملاقات میں وزیراعظم نے یقین دلایا آزاد عدلیہ کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
عدلیہ کی آزادی کیلئے فیض آباد دھرنا کیس کے پیراگراف 53 کے مطابق قانون سازی کی جائیگی،وزیراعظم سے ملاقات کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ فل کورٹ میٹنگ بلائی،فل کورٹ میٹنگ کے اندر وزیراعظم سے کی گئی ملاقات کی تفصیلات بتائی گئیں۔