اسلام آباد(اے ون نیوز )چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے درخواست پر سماعت کی جس دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کردیا ،سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کل جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا؟ سلمان اکرم راجا نے اسی متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی اور بطورجماعت (پی ٹی آئی نے) حصہ نہیں لیا تو آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا۔
فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سنی اتحادکونسل نے شیڈول کے مطابق مخصوص نشستوں کی لسٹ دی، الیکشن کمیشن نے درخواست مستردکرتے ہوئے کہا سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔فیصل صدیقی نے کہا اس میں کوئی تنازع نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات نہیں لڑے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ تنازع کی بات کیوں کررہے ہیں، بس کہیں الیکشن نہیں لڑا۔سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آزاد امیدوار سنی اتحادکونسل میں نہ جاتے تو تحریک انصاف کہہ سکتی تھی کہ مخصوص نشستیں ہمیں دو۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دو جگہ آپ نے پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی اور تیسری جگہ پولیٹیکل پارٹی لکھا، آخری جگہ پارٹی لکھا،کوئی خاص فرق ہے؟ اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمنٹری پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی کا بتایا ہے، پولیٹیکل پارٹی پارلیمانی پولیٹیکل پارٹی ہوسکتی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پولیٹیکل پارٹی اور پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرتا ہے۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ جو امیدوار ہمارے سامنے نہیں جن کی آپ نمائندگی کررہے ہیں وہ تو سب تحریک انصاف کے ہیں، تحریک انصاف کے امیدوار تو آپ کو چھوڑ رہے ہیں، آپ کی پارٹی میں نہیں آرہے، تحریک انصاف کے امیدوارتوپھرآزاد نہ ہوئے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے، پارلیمانی پارٹی کا نہیں، آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے، امیدوار حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، پارلیمانی پارٹی کاذکر ابھی غیرمتعلقہ ہے،مناسب ہوگا ابھی سیاسی جماعت اورکیس پرفوکس کریں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کاغذات نامزدگی میں کوئی خودکوپارٹی امیدوارظاہرکرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا میدوارتصورہوگا، آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔
جسٹس منیب اختر کے ریمارکس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس حساب سے تو سنی اتحاد کونسل میں تحریک انصاف کے کامیاب امیدوارشامل ہوئے، سیاسی جماعت میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہوسکتے ہیں، اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا تنازع کی وجہ بن گیا۔ جسٹس قاضی فائض عیسیٰ نے سوال کیا کہ تحریک انصاف یا آزاد امیدواروں نے بیٹ کا نشان لینے کی درخواست دی؟ چیلنج کیوں نہیں کیا اگر بیٹ کا نشان نہیں ملا؟ اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سب آزاد امیدوار تو بیٹ نہیں مانگ سکتے تھے۔اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سلمان اکرم راجا نے خودکو تحریک انصاف امیدوار قرار دینے کےلئے رجوع کیا تھا، الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجا کی درخواست مسترد کردی تھی۔
وکیل فیصلہ صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ بلے کے نشان والے فیصلے کی وضاحت کردیتی توسارے مسائل حل ہوجاتے ، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے تو نہیں کہا تھا کہ انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں، انٹرا پارٹی انتخابات کرالیتے سارے مسائل حل ہوجاتے۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا پارلیمنٹ میں زیادہ آزاد امیدوارہوں اور 2 سیاسی جماعتیں ہوں تو کیا ساری مخصوص نشستیں 2 سیاسی جماعتوں کو جائیں گی یا ان جماعتوں کوصرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟ پہلے اس تنازع کو حل کریں اس کا کیا جواب ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا اگر یہ 77 لوگ سنی اتحادکونسل میں شامل نہ ہوتے تو پھر مخصوص نشستوں کاکیا ہوتا؟ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے دو سیاسی جماعتیں اپنی جیتی نشستوں کے تناسب سے ہی مخصوص نشستیں لیں گی، باقی نشستوں کاکیاہوگا بعد میں دیکھاجائےگا، یہ نہیں ہوسکتا کہ سیاسی جماعتوں کواضافی نشستیں بھی بانٹ دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے یا توآپ کہیں ایوان کو مکمل نہیں کرنا تو پھر تو بات ہی ختم ہے اور اگر 336 کانمبر پورا ہوناہے تو پھر نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتے، آزاد امیدوارسنی اتحادکونسل میں نہ جاتے تو تحریک انصاف کا کیس اچھا ہوتا اور وہ یہ کہتے کہ مخصوص نشستیں ہمیں دو۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا اگرکوئی بھی سیاسی جماعت نشستیں نہ جیتے اور سب آزاد آئیں توکیا ہوگا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا ایسی صورت میں مخصوص نشستیں کسی کونہیں ملیں گی، اس پر جسٹس اطہر نے کہا اس کامطلب ہے سیاسی جماعتوں کو اپنی جیتی نشستوں کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا سیاسی جماعتوں کوکس تناسب سے نشستیں ملیں گی یہ آئین میں کہاں لکھاہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا حاصل کی گئی قومی نشستوں سے ہی سیاسی جماعت کامخصوص نشستوں کا تناسب نکلے گا۔وکیل درخواست گزار فیصل صدیقی نے کہاکہ ابھی قومی اسمبلی میں 7 آزاد اراکین ہیں اور7 سیٹوں پر مخصوص نشست نہیں بنتی۔ بعد ازاں عدالت نے مخصوص نشستوں سے متعلق سماعت مزید 24 جون تک ملتوی کردی۔