
پونچھ(اے ون نیوز)آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ میں پولیس نے مبینہ دہشتگرد زرنوش کی موجودگی کی اطلاعات پر اس کی ساتھیوں سمیت گرفتاری کیلئے چھاپہ مار کارروائی کی لیکن اس دوران شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور زور دار دھماکے نے حالات کو تبدیل کر دیا جسے خودکش بتایا جارہاہے ، اس میں زرنوش اپنے تین ساتھیوں سمیت مارا گیا جبکہ دو پولیس اہلکار بھی شہید ہو ئے۔
تفصیلات کے مطابق زرنوش نسیم باغ کا ایک نوجوان جو ماضی میں کئی تنازعات کا مرکز رہا ہے ، اس واقعے کے دوران موقع پر موجود تھا۔ابتدائی معلومات کے مطابق، یہ چھاپہ زرنوش نسیم اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کے لیے مارا گیا تھا، آپریشن کے دوران مبینہ طور پر نشانہ بنائے گئے مقام پر دھماکہ خیز مواد پھٹا، جس سے چار افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
پولیس کا ایک اہلکار، گل فراز (بھمبر سے تعلق) بھی فرائض کی انجام دہی کے دوران جان کی بازی ہار گیا جبکہ چھ دیگر پولیس اہلکاررحمان، حفیظ، نعمان، ذیشان، اصغر علی، اور نعیم زخمی ہوئے، جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ تاہم، بعض اطلاعات میں دو پولیس اہلکاروں کی شہادت کا بتایا جارہاہے ۔
زرنوش نسیم کون ہے؟
زرنوش نسیم باغ کا رہائشی ہے اور گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک متنازعہ اور باعثِ تشویش شخصیت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس کا نام پہلی بار گزشتہ سال اگست میں منظر عام پر آیا جب وہ غیر واضح حالات میں لاپتہ ہو گیا۔ مقامی افراد نے اس کی بازیابی کے لیے احتجاج کیے اور الزام لگایا کہ اسے بغیر کسی قانونی کارروائی کے حراست میں لیا گیا ہے۔ جبکہ سینیٹر مشتاق احمد بھی اس کیلئے آواز بلند کرتے ہوئے دکھائی دیئے ، بعد ازاں زرنوش یا تو رہا ہوا یا دوبارہ نمودار ہوا، تاہم اس کی گمشدگی اور واپسی کی تفصیلات غیر واضح ہی رہیں۔
زرنوش کا نام دوبارہ اس وقت خبروں میں آیا جب شجاع آباد پولیس چوکی پر ایک مسلح حملہ ہوا، جس میں کانسٹیبل سجاد ریشم شہید ہو گیا۔ بعد میں حکام نے اس حملے میں زرنوش کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ مارچ میں یہ کیس اس وقت مزید سنگین ہوتا دکھائی دیا جب آزاد پتن سے گرفتار ہونے والے ایک شخص، ثاقب غنی، نے پولیس حراست میں بیان دیا کہ کانسٹیبل سجاد ریشم کے قتل میں زرنوش اور اس کے ساتھی ملوث تھے اور وہ مزید حملوں کی منصوبہ بندی بھی کر رہے تھے۔
ثاقب کے ان دعوؤں کی تصدیق اس کے ہمراہ سفر کرنے والے دوسرے نوجوان نے بھی کی، جو از خود پولیس کے سامنے پیش ہوا۔ اس نوجوان نے ایک ویڈیو بیان میں یہی الزامات دہرائے۔
جلد ہی دھمنی سے ایک اور شخص کو گرفتار کیا گیا، جس کے ویڈیو اعتراف میں کہا گیا کہ اس نے زرنوش اور اس کے ساتھیوں کو اسلحہ اور خشک میوہ جات پہنچائے تھے۔ ان پیش رفتوں کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے زرنوش کی تلاش میں شدت لائی، جس کا اختتام باغ میں ایک چھاپے پر ہوا۔ اس کارروائی میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے دوران ایک عام شہری جاں بحق اور دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ زرنوش نسیم کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) سے تھا۔ معاملے کو مزید پیچیدہ بنانے والی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالرؤف، جو باغ کے رہائشی تھے اور اب مبینہ طور پر افغانستان میں مقیم ہیں،جو سوشل میڈیا پر زرنوش کی حمایت میں سرگرم ہیں۔ انہوں نے زرنوش کی گمشدگی اور حالیہ واقعات پر ریاستی مؤقف کو چیلنج کیا ہے۔