راولپنڈی (اے ون نیوز) ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ اس میں دو رائے نہیں کہ کسی کو میر جعفر، میر صادق کہنے کی مذمت کرنی چاہیے اور بغیر شواہد کے الزامات کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے جبکہ نیوٹرل اور جانورکہنا اس لیے نہیں کہ ہم نے کوئی غداری کی ہے بلکہ یہ سب اس لیے کہا جارہا ہے کیونکہ ہم نے غیر قانونی کام سے انکار کیا۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا کہ میری واضح پالیسی ہے کہ میری تشہیر نہ کی جائے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں، جھوٹ سے فتنہ و فسادکا خطرہ ہوتو سچ کاچپ رہنا نہیں بنتا، میں اپنے ادارے، جوانوں اور شہدا کا دفاع کرنے کے لیے سچ بولوں گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے شہیدوں کا مذاق بنایا گیا، اس میں دو رائے نہیں کہ کسی کو میر جعفر، میر صادق کہنے کی مذمت کرنی چاہیے، بغیر شواہد کے الزامات کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے، نیوٹرل اور جانور کہنا اس لیے نہیں کہ ہم نے کوئی غداری نہیں کی ہے، یہ سب اس لیے کہا جارہا ہے کیونکہ ہم نے غیر قانونی کام سے انکار کیا ہے، غیر قانونی کام سے انکار فرد واحد یا صرف ا?رمی چیف کا فیصلہ نہیں پورے ادارے کا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے مزید کہا کہ بالخصوص اس سال مارچ سے ہم پربہت پریشر ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہوا ہے خود کو آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے، جنرل باجوہ چاہتے تو اپنےآخری چھ سات مہینے سکون سے گزارسکتے تھے لیکن جنرل باجوہ نے فیصلہ ملک اور ادارے کےحق میں کیا، جنرل باجوہ اور ان کے بچوں پرغلیظ تنقید کی گئی۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ آرمی چیف کو ان کی مدت ملازمت میں غیرمعینہ مدت توسیع کی پیشکش کی گئی، اگرآپ کا سپہ سالارغدار ہے تو ماضی قریب میں ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھے گئے، اگر آپ کی نظر میں سپہ سالا غدار ہے تو اس کی ملازمت میں توسیع کیوں دینا چاہتے تھے، اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی چھپ کر اس سے کیوں ملتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ ا±س وقت جو حکومت وقت تھی جو توسیع کو قانونی طور پر دینے کے مجاز تھے انہوں نے یہ پیشکش دی، اس وقت یہ پیشکش اس لیے کی گئی کہ تحریک عدم اعتماد اپنے عروج پرر تھی،لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ہمارا محاسبہ ضرورکریں لیکن پیمانہ رکھیں کہ میں ملک کے لیے درست کام کررہاہوں یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مارچ 2021 کے بعدکسی الیکشن میں فوج یا آئی ایس آئی کی مداخلت کا ثبوت ہے تو لائیں، جب ڈی جی آئی ایس آئی بنا تو مجھ سے پوچھاگیاکہ پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ کیا ہے، میں نےکہا معاشی مسائل، جس نےمجھ سے پوچھا تھا اس کے نزدیک پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ حزب اختلاف تھی۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے سابقہ حکومت نے ا?رمی چیف کو غیر معینہ مدت تک توسیع کا کہا تھا،انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو بیرونی خطرات یا عدم تحفظ سے خطرہ نہیں ہے، پاکستان کا دفاع اس لیے مضبوط ہے کہ اس کی ذمہ داری 22 کروڑ عوام نے لی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا کہ جب آپ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرتے ہیں تو اس سے ملک میں عدم استحکام آتاہے، پاکستان نفرت کی وجہ سےدو ٹکڑے ہوا، ڈی جی ا?ئی ایس ا?ئی نے کہا کہ صدر پاکستان کی جن ملاقاتوں کا کہا جا رہا ہے وہ ملاقاتیں ہوئیں اور وہ ملاقاتیں منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکیں۔ بلا ضرورت سچ بھی شر ہے۔ پاکستان جمہوری ملک ہے، دوستوں اور دشمنوں کا فیصلہ کرنا منتخب حکومت کا کام ہے جبکہ فوج یا ادارے کا کام خفیہ معلومات اور رائے دینا ہے۔ پاکستان کو بیرونی خطرات یا عدم تحفظ سے خطرہ نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ادارے نے غیر سیاسی رہنے پر بہت دن بحث ہوئی پھر یہ فیصلہ کیا گیا،ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں ایک حق احتجاج کرنے کا بھی ہے، ہمیں کسی کے احتجاج، لانگ مارچ یا دھرنے پر اعتراض نہیں، جب زیادہ لوگ اکٹھے ہوں تو خطرہ ہوتاہے، ہمارافرض ہےکہ ہم سکیورٹی دیں، ہم باتیں نہیں کرتے کام کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ میرے ادارے اور ایجنسی کا کسی جماعت کے ساتھ انا نہیں، جس جماعت کی آپ نے بات کی اس میں میرے ذاتی دوست دیگر جماعتوں سے زیادہ ہیں،لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھاکہ جتنی بھی میٹنگز ہوئیں ہمارا مشورہ اوربیانیہ یہی تھاکہ آپ کو جوکرنا ہے آئین کے تحت کرناہے۔ اداروں کے خلاف بات ہوئی تو وزیراعظم اور دیگر وزرا نے مذمت کی، یہ نہیں کہوں گا کہ حکومت دانستہ خاموش ہے۔