اسلام آباد(اے ون نیوز) نومنتخب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے آباؤ اجداد کا تعلق افغانستان کے علاقے قندھار سے تھا، بعد میں وہ بلوچستان کے علاقے پشین میں آکر آباد ہوئے، ان کے دادا قاضی جلال الدین قلات ریاست کے وزیراعظم رہے جبکہ والد قاضی محمد عیسیٰ تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد کا شمار بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا، قاضی محمد عیسیٰ صوبہ بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم رہنما اور پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے انہیں آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان کے پہلے صدر ہونے کا اعزاز حاصل تھا بعد میں جب پاکستان کے قیام کیلئے ریفرنڈم ہوا تو انہوں نے اس میں بھرپور تحریک چلائی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی، کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی میں کراچی گرائمر سکول سے اے اور او لیول مکمل کیا اور پھر قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے انز آف کورٹ سکول آف لاء سے بار پروفیشنل اگزامینیشن مکمل کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عدالتی کیریئر بطور جسٹس
جسٹس قاضی فائز عیسٰی 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ اور مارچ 1998 میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بنے۔
پی سی او کیس فیصلے کے نتیجے میں بلوچستان ہائیکورٹ کے تمام جج فارغ ہوگئے تو جسٹس فائز عیسیٰ 5 اگست 2009 کو براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس فائز ہوئے، جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پبلک پارکوں کے استعمال، ماحولیات، خواتین کے وراثتی حقوق، فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق اہم فیصلے دیئے، انہوں نے نومبر 2007ء میں سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی اور عبوری آئینی حکم کے تحت ججز کے حلف لینے کی بھی شدید مخالفت کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم فیصلے
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس عرصے کے دوران کئی اہم مقدمات میں انتہائی اہم فیصلے تحریر کئے۔
میمو گیٹ کمیشن کی سربراہی
2012ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میمو گیٹ کمیشن کی سربراہی بھی کی، میمو گیٹ سکینڈل میں اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی پر الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان میں فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے امریکہ سے سول حکومت کی مدد کی درخواست کی تھی، جسٹس فائز عیسٰی نے سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی کمیشن رپورٹ میں حسین حقانی کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔
کوئٹہ خودکش دھماکہ انکوائری کمیشن
8 اگست 2016ء میں کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد اس کے حقائق جاننے کیلئے ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا جس کی سربراہی بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سونپی گئی، انکوائری کمیشن نے اپنی پیش کردہ رپورٹ میں خود کش دھماکے کو حکومت کی غفلت قرار دیا تھا، انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو متنبہ کیا کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی ضروری ہے۔
حدیبیہ پیپر ملز کیس
جسٹس قاضی فائز عیسٰی سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے دسمبر 2017ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور شہبازشریف کے خلاف نیب کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا، نیب نے حدیبیہ پیپر مل کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کو ایک ارب 20 کروڑ روپے کی کرپشن کے الزام سے بری کر دیا تھا۔
فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں ایک فیصلہ تحریر کیا جو بہت سی مقتدر قوتوں کو ناگوار گزرا تھا، فروری 2017ء میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے داخلی علاقے فیض آباد میں مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے سے عوام کو درپیش مشکلات پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا، جس کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال کیس کی سماعت کے بعد جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ تحریر کیا تھا۔
فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت
سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے جب 2015ء میں چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان چھ ججوں میں شامل تھے جنہوں نے فوجی عدالتوں کی مخالفت کی تھی۔
ان ججوں کا مؤقف تھا کہ ان عدالتوں کا قیام عدلیہ کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تاہم مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس فیصلے کو قوم کی فتح قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ان عدالتوں کی مدد سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا۔
از خود نوٹس پر اعتراض
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سب سے زیادہ از خود نوٹس لئے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس کارروائی پر بھی اعتراض کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے ہمراہ پشاور میں آرمی پبلک سکول حملہ کیس کی از خود نوٹس کی سماعت کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل کے پاس براہ راست کوئی اختیار نہیں کہ درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کیا جائے، انہوں نے اعتراض کیا کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت پہلے سپریم کورٹ کا آرڈر ضروری ہے۔
اسی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے اچانک عدالت برخاست کر دی تھی اور کچھ دیر بعد جب عدالت دوبارہ لگی تو بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسی شامل نہیں تھے۔
بطور وکیل خدمات
بطور وکیل وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور شریعت کورٹ میں پیش ہوتے رہے جبکہ متعدد بار عدالت میں بطور معاونت و مددگار بھی طلب کئے گئے، وہ بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ بار کے رکن تو رہے لیکن بار کی سرگرم سیاست نہیں کی۔
بلوچستان ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی سے قبل وہ انگریزی اخبارات میں آئین و قانون، تاریخ اور ماحولیات پر تجزیاتی آرٹیکلز بھی لکھتے تھے، اس کے علاوہ ’ماس میڈیا لاز اینڈ ریگولیشن کے مشترکہ مصنف، بلوچستان کیس اینڈ ڈیمانڈ‘ کے بھی لکھاری ہیں۔