سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس میں عدالت کی معاونت کیلئے 9 معاونین مقرر کر دیئے۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ پھانسی کا فیصلہ سپریم کورٹ سے برقرار رہا، نظرثانی کی اپیل بھی مسترد ہوئی، عدالت کا فیصلہ حتمی ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں 11 سال بعد سماعت ہوئی جسے براہ راست نشر کیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بنچ نے سابق وزیراعظم سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، لارجر بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔
سماعت کے موقع پر سابق صدر آصف زرداری، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سماعت کی براہ راست کارروائی کی درخواست منظور کی، پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے براہ راست کارروائی نشر کرنے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا جبکہ اس دوران بلاول بھٹو زرداری نے کیس میں فریق بننے کی درخواست کر دی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں بلاول بھٹو کی نمائندگی کروں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ورثا کے طور پر بھی سن سکتے ہیں اور بحیثیت سیاسی جماعت کے بھی۔
عدالت عظمیٰ نے ریفرنس میں پیش ہونے والے وکلا کے نام لکھ لئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کرتے تھے اب ہماری کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کارروائی لائیو ہوگی۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ کی درخواست آنے سے پہلے ہم نے لائیو نشریات کا فیصلہ کر لیا تھا، صدارتی ریفرنس ابھی بھی برقرار ہے، یہ واپس نہیں کیا گیا، براہ راست کارروائی کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، آج براہ راست کارروائی کا لنک دستیاب ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہر قانونی وارث کا حق ہے کہ اسے سنا جائے، کیس کی سماعت لائیو لنک سے نشر ہو رہی ہے، سوال یہ ہے کہ یہ صدارتی ریفرنس ہے تو کیا حکومت اس کو اب بھی چلانا چاہتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ صدارتی ریفرنس کو حکومت چلانا چاہتی ہے، ریفرنس 15 صفحات پر مشتمل ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ ریفرنس کا ٹائٹل پڑھیں جس پر اٹارنی جنرل نے ریفرنس پڑھنا شروع کر دیا۔
اٹارنی جنرل نے ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالات عدالت کے سامنے رکھے اور دلائل کا آغاز کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ کون سے صدر نے یہ ریفرنس بھیجا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ریفرنس صدر آصف زرداری نے بھیجا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کے بعد کتنے صدر آئے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کے بعد دو صدور آ چکے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی صدر نے یہ ریفرنس واپس نہیں لیا، سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے ریفرنس مقرر نہ کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے دوران بنچ پر اعتراض کی کوئی درخواست دی گئی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھی۔
ریفرنس میں جج کے تعصب سے متعلق آصف زرداری کیس 2001 کا حوالہ دیا گیا۔
دوران سماعت احمد رضا قصوری روسٹرم پر آئے اور نسیم حسن شاہ کے ایک اخبار میں انٹرویو کا حوالہ دیا جس پر جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر ہوگا اٹارنی جنرل کو دلائل دینے دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21 اپریل 2011 کو صدارتی حکم نامہ جاری کیا گیا تھا اور صدارتی حکم نامے کے ذریعے بھٹو ریفرنس کے سوالات فریم کئے گئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سینئر ممبر بنچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے، دو اور ججز نے ذاتی وجوہات پر سماعت سے معذرت کی، اس کے بعد 9 رکنی بنچ تشکیل دیا گیا۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیئے اور کہا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظرثانی بھی خارج ہو چکی، ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟۔
جسٹس منصور علی نے کہا کہ سپریم کورٹ دوسری نظرثانی نہیں سن سکتی، ایک معاملہ ختم ہوچکا ہے، عدالت کو یہ تو بتائیں کہ اس کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟ فیصلہ برا تھا تو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے بدلا نہیں جاسکتا، یہ آئینی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے۔
جسٹس منصور نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ عدالت کو کوئی قانونی حوالہ تو دیں، آرٹیکل 186 کے تحت دائر صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نظرثانی نہیں ہوسکتی، اب ہم بھٹو فیصلے کو چھو بھی نہیں سکتے، عدالت کو بتائیں کو جو معاملہ حتمی ہو کر ختم ہو چکا اسے دوبارہ کیسے کھولیں؟۔
اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ بھٹو کیس عوامی اہمیت کا حامل کیس تھا۔
جسٹس منصور نے کہا کہ عوامی اہمیت کا حامل سوال صدر نے دیکھنا تھا، عدالت قانونی سوال دیکھے گی جو بھی کیس ہو عدالت قانونی سوالات کے بغیر فیصلہ کیسے کر سکتی ہے؟ عدالت کس قانون کے تحت یہ ریفرنس چلائے؟
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت جنوری تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا اور کیس میں 9 عدالتی معاون مقرر کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
9 قانون دان عدالتی معاون مقرر
سپریم کورٹ نے کہا کہ جسٹس (ر) منظور ملک کو عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے اور ان کی معاونت ان کی رضا مندی سے مشروط ہوگی، وہ عدالت کی معاونت کیلئے تحریری جواب یا ذاتی حیثیت میں پیش ہوسکتے ہیں۔
فوجداری معاملات پر عدالت کی معاونت کیلئے خواجہ حارث کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے جبکہ بیرسٹر سلمان صفدر کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے، عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کر کے جواب لیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا اور آخری بار صدارتی ریفرنس 2012 میں سنا گیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا۔
بعدازاں عدالت نے ذوالفقارعلی بھٹو ریفرنس کی سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔