سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کردیا،فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کیاگیا، جسٹس مسرت ہلالی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا،کیس کی مزید سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملے پر سماعت ہوئی، جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی۔
لطیف کھوسہ نے عدالت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ بنچ پر اعتراض ہے،جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو نوٹس ہوا ہے؟فریقین کو نوٹس ہو گا تب آپ کا اعتراض دیکھیں گے،لطیف کھوسہ نے کہاکہ آپ بیٹھ کر کیس سن رہے ہیں اس لئے بول رہا ہوں،جسٹس سردار طارق نے کہاکہ کیا ہم کھڑے ہو کر کیس سنیں، بیٹھ کر ہی مقدمہ سنا جاتا ہے،فیصل صدیقی نے اعتراض کیا کہ حکومت نجی وکلا کی خدمات حاصل نہیں کر سکتی،اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نجی وکلا کی خدمات کیلئے قانونی تقاضے پورے کئےہیں،مناسب ہو گا پہلے درخواست گزاروں کو سن لیا جائے،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ ہمیں سنے بغیر معطل نہیں کر سکتی۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے جواد ایس خواجہ کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے بنچ سے الگ ہونے سے انکار کر دیا،جسٹس سردار طارق مسعود نے کہاکہ جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ کیس سننے سے انکار کا فیصلہ جج کی صوابدید ہے،معذرت کے ساتھ خود کو بنچ سے الگ نہیں کر سکتا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہاکہ 2لائن میں ایک قانون کی پوری سیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا، خواجہ حارث نے کہاکہ سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں میں پہلے ان دفعات کو برقرار رکھا گیا تھا،فیصلے میں 5رکنی بنچ نے چار ایک کی اکثریت سے دفعات کو کالعدم قرار دیا،21ویں آئینی ترمیم کیس میں بھی ان دفعات کو برقرار رکھاگیا،
جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ ملٹری کورٹس میں فیئر ٹرائل کو یقینی کیسے بنائیں گے،وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ سویلینز میں کلبھوشن یادیو جیسے لوگ بھی آتے ہیں،آرمی ایکٹ میں سویلینز پر دائرہ اختیار پہلے ہی محدود تھا،سویلینز سے متعلق دفعات کو کالعدم نہیں دیا جا سکتا،جسٹس سردار طارق مسعود نے کہاکہ ابھی ہمارے سامنے تفصیلی فیصلہ نہیں آیا،کیا تفصیلی فیصلہ دیکھے بغیر ہم فیصلہ دیدیں؟
جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیاکہ خواجہ حارث صاحب! کیا تفصیلی فیصلے کا انتظار نہ کرلیں؟خواجہ حارث نے کہاکہ پھر میری درخواست ہو گی ملٹری کسٹڈی میں لوگوں کا ٹرائل چلنے دیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل مکمل ہو گئے تھے؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ کچھ ملزمان پر فرد جرم عائد ہو گئی تھی، کچھ پر ہونا تھی،بہت سے ملزمان شاید بری ہوجائیں،جن کو سزا ہوئی وہ بھی 3سال سے زیادہ نہیں ہوگی،جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہے کہ سزا 3سال سے کم ہو گی؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ کم سزا میں ملزمان کی حراست کا دورانیہ بھی سزا کا حصہ ہوگا۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کردیا،فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کیاگیا، جسٹس مسرت ہلالی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا،کیس کی مزید سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ نے کہاہے کہ 9مئی واقعات میں زیرحراست ملزمان کا ٹرائل جاری رہے گا،خصوصی عدالتیں ٹرائل مکمل ہونے پر حتمی فیصلہ نہیں سنائیں گی،سپریم کورٹ نےفریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔