اسلام آباد(اے ون نیوز)تحری انصاف کو بلا ملے گا یا نہیں؟سپریم کورٹ میں بلے کے نشان پر سماعت جاری ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہآپ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کرتے ہیں، تو آپکی پارٹی میں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہئے، جن لوگوں سے آپکو اختلاف ہے انہیں بھی جماعت میں پورا موقع ملنا چاہیے ۔
علی ظفر نے دلائل دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں، وہ عمومی نوعیت ہے ہیں، انتخابی نشان بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے، ایوب کے دور کے بعد کی بات کریں تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ایک تاریخ ہے، پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان واپس لیا گیا، پھر پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین بنی، ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ نے ابھی ایسا ہی وقت دیکھا۔
لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے،آج کی اور تب کی صورتحال میں بہت فرق ہے، تب سپریم کورٹ کے ججز نے پی سے او کے تحت حلف اٹھایا تھا، آج تحریک انصاف کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، آج کل ہر کوئی اسٹبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہئے ۔
میں آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں، آپ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباو ہے تو اس کو بھی ثابت کریں، پہلا شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تب آپکی حکومت تھی ، کیا تب بھی اسٹبلشمنٹ کا دباو¿ تھا؟ ،اسٹیبلشمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباو ڈالے گی؟ ،عدالت آئینی اداروں کو کنٹرول تو نہیں کر سکتی، آپ جب بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں تو بتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے۔