اسلام آباد(اے ون نیوز)سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے انتخابی نشان سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا،38 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے،تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات میں اپنے ہی ممبران کو لاعلم رکھا، قانون کے مطابق پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہیں دیا جاسکتا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو متعدد شوکاز نوٹس جاری کیے، شوکاز نوٹسز کے باوجود پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے۔
الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر انتحابی نشان واپس لیا جاسکتا ہے،انٹرا پارٹی الیکشن جیت کر آنے والوں کو یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ پارٹی امور چلائیں، الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر انتخابات نشان نہ دیں، جب انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے ایک سال کا وقت دیا اس وقت تحریک انصاف حکومت میں تھی۔
اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے، اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی تحریک انصاف کی حکومتیں تھیں، اضافی وقت دینے کے باوجود تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے ، تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا، اسلام آباد،10 جنوری 2024 کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر 2023 کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ نے درخواست گزار کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا کہا، اسلام آباد،20 دن بعد پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کچھ نہیں کر سکتا،پشاور ہائیکورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو بھی نظر انداز کیا، پشاور ہائیکورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظار بھی نہ کیا،لاہور ہائیکورٹ میں یہ معاملہ لارجر بینچ کے سامنے زیر سماعت تھا، پشاور ہائیکورٹ کے سامنے محض سرٹیفکیٹ کا معاملہ نہیں تھا بلکہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ تھا۔
اگر انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہی نہیں تو سرٹیفکیٹ کے معاملے کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن کا ایسے حالات میں مکمل اختیار ہے، پشاور ہائیکورٹ کا الیکشن کمیشن کے اختیارات میں دخل اندازی اختیارات سے تجاوز ہے، ہائیکورٹ کیسے الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے۔